تحریر: سید تنویر حیدر
اپنے آپ کو مفتیان دین کہلانے والے کچھ اشخاص ایک عرصے سے مسلسل اہل بیت کی شان میں گستاخیاں کر رہے تھے۔ امیرالمومنین اور نواسہء رسول (ع) کی توہین کو انہوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ یہ وہ ہستیاں تھیں، جنہیں رسول اللہ (ص) نے اپنا نفس، اپنی جان اور اپنے نور کا حصہ قرار دیا تھا۔ کیا ان ہستیوں کی توہین رسول خدا (ص) کی توہین نہیں تھی؟ کیا رسول اللہ (ص) یہ قبول کریں گے کہ کوئی ان کے پیارے نواسے کی توہین تو برداشت کر لے لیکن ان (ص) کی توہین اسے ناگوار گزرے؟ یقیناً نہیں۔ آج ایک مفتی صاحب نے قرآن مجید پر حرف اٹھایا ہے اور ان مفتی صاحب کے کچھ ہم عقیدہ ان کی گستاخیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مفتی صاحب نے رجوع کر لیا ہے۔
لیکن مفتی صاحب اب تک جو تعفن پھیلا چکے ہیں، اس نے تمام دنیا کی فضاء کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ کام جو اب تک غیر مسلم نہیں کرسکے، ایک پاکستانی مسلم اسکالر نے امریکہ میں بیٹھ کر انجام دے دیا ہے۔ وہی امریکہ جہاں اس نوع کا ایک اور شخص شیعہ اسکالر بن کر اسلامی قوتوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مفتی صاحب کی اس حرکت پر تو ”صدر پوٹن“ بھی شرمندہ ہو رہا ہوگا، جس نے دنیا کے میڈیا کے سامنے قرآن مجید کو چوما تھا۔ مفتی صاحب نے کائنات کے سب سے بڑے معلم کو جو ان پڑھ کہا ہے، یہ محض ان کی زبان کی لغزش نہیں ہے بلکہ یہ ان جیسے بدعقیدہ افراد کا عقیدہ ہے۔
یہ لوگ ”امی“ کا مطلب ان پڑھ لیتے ہیں۔ گویا جو بات مذکورہ مفتی صاحب کے علم میں آگئی، وہ رسول خدا کے علم میں نہیں آئی۔ اس موقع پر ”مروان“ کی مثال کیوں نہیں دی جاتی؟ مروان جو کاتب وحی تھا، لیکن اسے بھی مفتی صاحب کی طرح خیال آیا کہ رسول اللہ کچھ نہیں جانتے، لہذا اس نے تحریری بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک وحی کے الفاظ کو بدلنے کی کوشش کی، لیکن رسول خدا نے اس پر گرفت کر لی اور اس ناسور کو شہر بدر کرنے کا حکم دیا، لیکن ایک شخصیت اسے دوبارہ مدینے میں لے آئی اور پھر اسی مروان نے اپنے اس محسن کی بساط الٹ دی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ جنہوں نے رسول خدا اور اہل بیت کے مقابلے میں” قرآن کافی ہے“ کا نعرہ لگایا، آج وہ کس منہ سے قرآن میں نقص نکال رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے قرآن ناطق کا انکار کیا، پھر انہوں نے قرآن صامت کو مشکوک بنا دیا۔ یہاں میں یہ بھی ذکر کر دوں کہ اہل تسنن اور اہل تشیع کی کتب میں بعض ایسی ضعیف روایت بھی ملتی ہیں، جن میں قرآن کی بعض آیات میں ردوبدل کی بات کی گئی ہے، لیکن اس قسم کی روایات کو کئی اور روایات کی طرح شیعہ اور سنی اکابر تسلیم نہیں کرتے اور ان کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی آیات میں زیر، زبر، پیش کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا جن دو گراں قدر چیزوں یعنی قرآن اور اہلبیت کو امت کی رہنمائی کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہوں، وہ معاذ اللہ ناقص ہوں۔ اگر مفتی صاحب کسی ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ صدق دل سے واقعی رجوع کرنا چاہتے ہیں تو اب تک انہوں نے قرآن و اہلبیت کے بارے میں جتنی بھی گستاخیاں کی ہیں اور ان گستاخیوں کی وجہ سے جس طرح دنیا بھر کی اقوام کے سامنے قرآن کی سچائی کا مقدمہ کمزور ہوا ہے، ان سب کے کفارے کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں۔