تحریر: سید جعفر شاہ کاظمی
شہید راہ مقاومت و راہ مزاحمت، حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی مظلومانہ شہادت یقیننا اسلام پسندوں اور مجاہدین اسلام کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ بھی سچ ہے شہید راہ حق اسماعیل ہانیہ کا پورا خاندان یکے بعد دیگرے قبلہ اول کی آزادی کی راہ میں شہید ہوئے۔ اگرچہ تہران میں اس اندوہناک واقعے نے ایرانی سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس پہ کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں کہ وہ اپنے مہمان جوکہ ایک ہائی پروفائل ٹارگٹ تھا کو سیکیورٹی دینے میں ناکام رہے۔ اس کا جواب ایرانی ادارے ہی دے سکتے ہیں، مگر اس واقعے کو لے کر صہیونی توقعات کے عین مطابق کچھ صہیون نواز چھوکرے اور دیسی لونڈے لپاڑے براہ راست ایران کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔
ان کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ اس طرح کے حملے ناقابل شکست سمجھنے والے سپر پاور امریکہ میں بھی ہوچکے ہیں۔ ان کے ہر دلعزیز صدر جان ایف کینیڈی کو بھی سخت سیکیورٹی حصار کے باوجود قتل کردیا گیا تھا جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ دنوں میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔ کیا دنیا یہ بات بھول گئی ہے کہ سب سے زیادہ خفیہ نیٹ ورک رکھنے والی خفیہ ایجینسی سی آئی اے کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور امریکہ کے ہی کئی ایئرپورٹس سے کئی طیارے اغوا ہوئے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیاتھا جس میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت کے حامل ملک عزیز پاکستان میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی مظلومانہ شہادت، صدر پاکستان محمد ضیاء الحق اور اہم سیاسی و عسکری شخصیات کا فضائی سانحہ، اس سانحے میں ہم بھی امریکی سفیر جوکہ ہمارے ملک میں مہمان ڈپلومیٹ ہی تھے کو تحفظ فراہم نہ کرسکے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کہنے والے تو جنرل ضیاءالحق سمیت پاک فضائیہ کے چیف ائیر مارشل مصحف علی میر کا حادثہ بھی سازش ہی قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان میں غیر ملکی مہمانوں کی شہادت و ہلاکتوں کی داستان بدقسمتی سے طویل ہے اور ہنوز جاری ہے جن میں ایرانی سفیر صادق گنجی کی شہادت، ایرانی انجینیئرز کی شہادت، ایرانی کیڈٹس (پائلٹس) کی راولپنڈی میں شہادت، چینی انجینرز اور کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پہ خودکش حملے قابل ذکر ہیں۔
ملک عزیز پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت و سابق وزیراعظم عمران خان پہ قاتلانہ حملہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے ایسے حملے نہ صرف سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجینسیز کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان ہے مگر یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ ایسے حملے اندرونی دشمنوں اور غداروں کی ملی بھگت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ایسے غدار کسی بھی ادارے میں penetrate کرسکتے ہیں۔ سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف مرحوم پہ ہونے والے پہ درپےخودکش حملوں میں ملوث سیکیورٹی فورسز کے لوگ پکڑے گئے اور سزائیں بھی ہوئیں۔
جب سے پاکستان جوہری قوت بنا ہے تب سے ہمارے دشمنوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں سرفہرست بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی ہے، بالکل اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کے بعد دنیا کی اہم طاقتیں ایرانی انقلاب کے درپے ہیں اور اس انقلاب کو ڈی ریل کرنے کے لئے کبھی عراق کی طرف سے جنگ تھوب دی جاتی ہے تو کبھی دشمن اپنے خفیہ اہلکاروں اور ایران کے اندرونی غداروں سے شہید مطہری، شہید جواد باہنر، شہید بہشتی، شہید رجائی، شہید سلیمانی، شہید رئیسی اور اب اسماعیل ہنیہ جیسے حریت پسند اور مقاومت کے ستونوں کو ڈھانے کی کوشش کرتے ہیں اور بظاہر اس میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔
دشمن کیا یہ بھول گئے ہیں کہ بظاہر تو یزید بھی کربلا میں فوجی معرکہ جیت گیا تھا، مگر آج حسینی فکر، مشن اور ذکر حسین ہر بیدار قوم کی میراث ہے اور یزیدی فکر دم گھٹ گھٹ کرمرچکی ہے۔ یقینناً اسماعیل ہنیہ کی تہران میں شہادت سے دشمن کئی طرح کے فائدے اٹھا سکتے ہیں۔ فلسطین کاز سے ایران کو دور کرنا ان کا اصلی ہدف ہوسکتا ہے جسے اس مظلومانہ شہادت کے بعد دشمن بڑی قوت کے ساتھ استعمال کرے گا۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس آزمائش سے سروخرو ہوکر نکلنے اور دشمنوں پر غلبے کی راہ آسان فرمائے آمین۔