0
Wednesday 12 Jun 2024 18:56

بچوں کی قاتل

بچوں کی قاتل
تحریر: سید رضا میر طاہر

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اپنی رپورٹ میں پہلی بار اسرائیل کو مسلح تنازعات میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے۔ یہ رپورٹ جمعرات  13 جون کو باضابطہ طور پر شائع کی جائیگی، اس میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے واقعات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 35 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے سب سے زیادہ واقعات فلسطین، جمہوریہ کانگو، میانمار، صومالیہ، نائیجیریا اور سوڈان کے مقبوضہ علاقوں میں پیش آئے۔ انتونیو گوٹیرس کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی پیش رفت کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بچوں کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں میں 155 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس سلسلے میں مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں 4,247 فلسطینی بچوں کے خلاف حقوق کی خلاف ورزیوں کے 7,837 مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن کا ارتکاب صہیونی فوج اور آباد کاروں نے کیا ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی فوج نے غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں بچوں کی انسانی امداد کی رسائی بھی منقطع کر دی ہے۔ گوٹیریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے۔ ’’میں مشرقی یروشلم سمیت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور فورسز کے ہاتھوں ہلاک، زخمی اور معذور بچوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے سے حیران رہ گیا ہوں۔‘‘

بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں اسرائیل کا نام شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ غزہ جنگ میں اس کے مجرمانہ اقدامات بالخصوص غزہ کی پٹی کے عوام اور بالخصوص بچوں کی نسل کشی اس قدر وسیع اور ناقابل تردید تھی کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس بات پر مجبور ہوگئے کہ وہ صیہونی حکومت کی بین الاقوامی مذمت کے ساتھ ساتھ اس حکومت کا نام مذکورہ فہرست میں شامل کر دیں۔ ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بھی تاکید کی ہے کہ صیہونی حکومت کی اسپیشل فورسز نے اپنے قیدی چھوڑانے کی کارروائیوں میں عام شہریوں کو قتل کیا، جو شاید جنگی جرم ہے۔"

 اقوام متحدہ کے اس ادارے نے اعلان کیا ہے کہ ہم شہریوں پر قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے اسرائیل کے آپریشن کے نتائج سے بہت حیران ہیں۔ قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے اس آپریشن میں عام شہریوں کو مارنا شاید جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔" قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کی فوج کے ہاتھوں چار صیہونی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے سینکڑوں فلسطینی شہریوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی مذمت کی۔ یاد رہے کہ  آٹھ جون بروز ہفتہ غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع النصیرات کیمپ اور اس کے اطراف کے علاقوں پر صیہونی حکومت کے شدید توپ خانے اور فضائی حملوں میں 274 فلسطینی شہید اور 698 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے۔ اس کارروائی کے بعد صہیونی فوج نے النصیرات کیمپ سے اپنے چار قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔

 یوں تو صیہونی حکومت کے جرائم بالخصوص غزہ کے عوام کی نسل کشی اور بچوں کا بڑے پیمانے پر قتل نیز بھوک کے ہتھیاروں کا استعمال اور اس علاقے میں قحط پیدا کرنا یقینی اور ناقابل تردید ہیں، لیکن امریکہ نے بین الاقوامی اداروں میں اس حکومت کی مذمت اور تحقیقات کو ہمیشہ روکا ہے، حالانکہ ان جرائم کی تحقیقات بین الاقوامی عدالتی اداروں  آئی سی جے جیسے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے کی ہیں۔ جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کی خلاف ورزیوں کی شکایت کی اور اسے 1948ء کے نسل کشی کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ ایک ایسا عمل تھا، جسے دنیا بھر کے درجنوں ممالک نے سپورٹ کیا ہے۔

عرب لیگ نے بھی جنوبی افریقہ کی طرف سے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف میں صیہونی حکومت کے خلاف اجتماعی قتل عام اور 1948ء کے اجتماعی قتل کی ممانعت کے کنونشن کی خلاف ورزی پر جمع کرائی گئی شکایت کی مکمل حمایت پر زور دیا ہے۔ اسی طرح 200 بین الاقوامی ماہرین قانون اور پروفیسرز نے صیہونی حکومت کے خلاف جنوبی افریقہ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ جنوبی افریقہ نے نسل کشی کے خلاف جنیوا کنونشن (1948ء) کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا، لیکن وائٹ ہاؤس نے کھل کر اس کارروائی کی مخالفت کا اعلان کیا۔

تاہم غزہ جنگ میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالتی اداروں کے فیصلہ کا ردعمل جاری ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر "کریم خان" نے حال ہی میں وزیراعظم "بنیامین نیتن یاہو" اور صیہونی حکومت کے جنگی وزیر "یاوو گیلانت" کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا مطالبہ کیا، اس پر امریکہ نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کی وجہ سے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ججوں کو پراسیکیوٹر کی درخواست پر اپنا فیصلہ جاری کرنا چاہیئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ فیصلہ کب تک ہوگا، تاہم ایسے فیصلے کرنے میں کبھی ہفتے اور کبھی مہینے لگتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے بعد عالمی سطح پر صیہونی حکومت کی مذمت اور تنہائی کی جانب ایک اور قدم اٹھایا گیا ہے۔ بہرحال غزہ جنگ میں جنگ بندی کے نفاذ سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نئی قرارداد کی منظوری کے ساتھ ساتھ اس حکومت کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے سے غزہ کے عوام بالخصوص بچوں اور خواتین کی روزانہ کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1141375
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش