1
Sunday 2 Jun 2024 20:49

تاریخ کی صحیح سمت

تاریخ کی صحیح سمت
تحریر: محمد ہادی صحرائی
 
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے حال ہی میں امریکہ کے یونیورسٹی طلبہ کو خط لکھا ہے اور ان کی جانب سے فلسطین کے حق میں احتجاجی مہم شروع کئے جانے کی قدردانی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس وقت تاریخ ایک اہم موڑ سے گزر رہی ہے اور وہ مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کا فیصلہ کر کے تاریخ کی درست سمت کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے خط میں رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے صیہونی مظالم کے خلاف احتجاج میں مصروف امریکہ کے یونیورسٹی طلبہ کو بیدار ضمیر انسان قرار دیا اور کہا کہ آپ درحقیقت اس اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہیں جو گذشتہ چند عشروں سے اسرائیل کی جعلی صیہونی رژیم کے خلاف برسر پیکار ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خط میں مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں صیہونیوں کے ظلم و ستم کی طویل تاریخ کی جانب اشارہ کیا اور امریکہ اور برطانیہ جیسی سامراجی طاقتوں کو صیہونیوں کا ہمیشگی حامی اور شریک جرم قرار دیا۔
 
اس وقت طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت شروع ہوئے تقریباً 240 دن گزر چکے ہیں۔ یہ عرصہ اہل غزہ کی جانب سے اپنی بقا کی جدوجہد کا عرصہ ہے۔ اس دوران دنیا والوں نے جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں بدترین مجرمانہ اقدامات اور انسان سوز مظالم کا مشاہدہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سفاک صیہونی حکمرانوں کے ہاتھوں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی بھی جاری ہے۔ اگرچہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد کسی نے 75 ملین انسانوں کے قتل عام اور کروڑوں انسانوں کے زخمی ہونے کی بات نہیں کی، اور اگرچہ کسی نے اسی زمانے میں برطانوی سامراج کی مسلط کردہ قحطی کے نتیجے میں 90 لاکھ ایرانیوں کے مارے جانے پر آواز نہیں اٹھائی، لیکن آج صیہونی جرائم پیشہ حکام کی جانب سے رفح میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستی کو جلا کر خواتین اور بچوں کو زندہ زندہ جلا دینے نے دنیا بھر میں شدید احتجاج کی لہر دوڑا دی ہے۔
 
اس حد تک جرائم کا ارتکاب، انسانی حقوق سے بے توجہی، عالمی عدالت کے احکامات سے روگردانی، دنیا بھر کے انسانوں کے جذبات مجروح کرنا اور انسانی اصولوں اور اقدار کو پاوں تلے روند ڈالنا تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو چکی ہے اور اس کا حقیقی چہرہ سب پر عیاں ہو چکا ہے۔ گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران غاصب صیہونی رژیم نے جس حیرت ناک درندگی کا مظاہرہ کیا ہے اس نے عالمی رائے عامہ کو ایسی سمت دھکیل دیا ہے کہ اب وہ تاریخ میں موجود صیہونیوں کے تمام دشمنوں کو حق بجانب تصور کرنے لگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی کوئی قوم بھی اس قدر شدت پسندی، ہٹ دھرمی، شیطنت اور درندگی کا مظاہرہ کرتی وہ پوری دنیا کے انسانوں کی نظر میں منفور قرار پاتی۔ صیہونیوں نے اب تک دھوکہ دہی، جھوٹ اور مظلوم نمائی کے ذریعے ایسے ہولناک جرائم انجام دیے ہیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
 
دنیا میں کس جگہ بھوکے اور پیاسے انسانوں کی خیمہ بستی کو بھاری بموں سے نذر آتش کیا جاتا ہے؟ اب تک تاریخ میں کس نے صیہونی رژیم جیسی جرائم پیشہ اور درندہ صفت رژیم کو جدید ترین ہتھیاروں اور بموں سے لیس کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صیہونی رژیم کے انسان سوز اور ہولناک جرائم میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور ہر وہ جس نے اس کی مدد کی ہے، برابر کا شریک ہے اور انسانیت کیلئے شدید خطرہ ہے۔ اس وقت دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے؛ ایک اسرائیل کے حامی اور دوسرے اسرائیل کے مخالف اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تاریخ کی آخری لشکر کشی ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس میں ایک طرف مستضعفین اور بیدار ضمیر انسان قرار پائے ہیں جبکہ دوسری طرف مستکبرین اور ایسے نجس حکمران قرار پائے ہیں جن کے مفادات جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی بقا سے وابستہ ہیں۔
 
جب امریکی پولیس اپنے طلبہ کو صیہونزم کے بارے میں اظہار خیال کی اجازت نہیں دیتی اور انتہائی غیر مہذب انداز میں یونیورسٹی پروفیسرز سے برتاو کرتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اور جب غاصب صیہونی رژیم کی حامی حکومتیں اپنی عوام کو صیہونی ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی اجازت نہیں دیتیں تو کیا اس کا مطلب نسلی تعصب اور آمریت کے سوا کچھ اور ہو سکتا ہے؟ اگر اسٹاک ہوم کی خواتین حجاب کے خلاف صف آرا ہوتی ہیں تو سامراجی میڈیا انہیں مقدس گردانتا ہے اور اس وقت جب وہی خواتین غزہ اور رفح میں اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلی ہیں تو پولیس ان پر مرچوں کا اسپرے کرتی ہے اور سامراجی میڈیا ان کا بائیکاٹ کرتا ہے۔ دوسری طرف اگر ایک نفسیاتی مریض قرآن کریم کو نذر آتش کرتا ہے تو یہی میڈیا اسے بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے اور "انسانیت زندہ باد" کے نعرے لگاتا ہے۔
 
امریکی یونیورسٹی طلبہ اور اساتید کے نام رہبر معظم انقلاب اسلامی کا خط ایک طرف خیر اور نجات کی جانب دعوت ہے جبکہ دوسری طرف حق کی حمایت میں مصروف طلبہ کیلئے امید کی کرن ہے۔ دنیا والوں کو یہ سننا اور سمجھنا چاہئے کہ مستقبل میں تشکیل پانے والی عظیم تہذیب و تمدن کی بنیاد توحید، عدالت اور انسان کے احترام پر استوار ہو گی۔ ایسی تہذیب جس کی اساس قرآن کریم ہے اور اس میں یہ فطری نعرہ لگایا جائے گا کہ "نہ ظلم کرو اور نہ ہی ظلم برداشت کرو۔" یہ تہذیب و تمدن خوبصورت بشری زندگی تشکیل دے گی۔ اس وقت دنیا صیہونزم سے عاری ہو گی اور انسان ہر قسم کے فساد اور شدت پسندی سے پاکیزہ زندگی کا تجربہ کریں گے۔ مغربی امریکہ سے لے کر یورپ، افریقہ اور مشرقی ایشیا تک تمام مستضعفین اپنے حقوق پا لیں گے اور حقیقی عدالت برپا ہو جائے گی۔ خدا کے لطف و کرم سے صیہونزم اور نئولبرلزم بھی کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1139263
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش