اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ پر اسرائیل کی فوجی جارحیت کے دوران امریکہ نے بہت وسیع حد تک صیہونی رژیم کو سیکورٹی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ صیہونی فوج نے امریکہ کے فراہم کردہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان کو غزہ میں واضح جنگی جرائم کے ارتکاب میں استعمال کیا تھا لیکن جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت نے اس کی فوجی امداد جاری رکھی اور بدستور اسرائیل کو بڑی مقدار میں اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کرتی رہی۔ ہیومن رائٹس واچ کے اعلی سطحی عہدیدار برونو اسٹیگنو نے اس بارے میں کہا: "اگر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات میں جو بائیڈن حکومت کی شراکت اور تعاون کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں فوراً اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روک دینی چاہیے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ ان کی جنگ ہے لیکن جب تک امریکہ اسرائیل کی فوجی مدد اور حمایت ختم نہیں کرتا اس وقت تک غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ بھی جانی جائے گی۔"
امریکہ کی براون یونیورسٹی کی جانب انجام پانے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد ایک سال کے اندر صیہونی رژیم کو فراہم کی جانے والی امریکہ کی فوجی امداد میں 17.9 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی مارچ 2024ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ نے گذشتہ سال اکتوبر سے اب تک اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فروخت کرنے کے 100 سے زیادہ معاہدے انجام دیے ہیں جن کے تحت ہزاروں جدید گائیڈڈ ہتھیار، چھوٹے بم، اینٹی بنکر بم، چھوٹے ہتھیار اور دیگر مہلک ہتھیار اسرائیل کو فراہم کیے گئے ہیں۔ جنوری 2025ء کے شروع میں بھی جو بائیڈن حکومت نے کانگریس کو اطلاع دی تھی کہ وہ اسرائیل کو 8 ارب ڈالر کی مزید فوجی امداد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے نتیجے میں کم از کم 47 ہزار فلسطینی شہری شہید ہوئے ہیں اور یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ شہداء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو۔ صیہونی رژیم نے غزہ پر فوجی جارحیت کے ساتھ ساتھ شدید محاصرہ بھی جاری رکھا ہوا تھا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہری بھوک اور بیماری کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں۔
غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ تقریباً 16 ماہ کی جنگ کے دوران بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شدید محاصرے کے باعث غزہ میں مقیم فلسطینی پانی، بجلی، میڈیکل سہولیات اور دیگر ضروری اشیاء سے محروم رہے ہیں۔ اسی طرح صیہونی فوج نے غزہ کا انفرااسٹرکچر بھی تباہ کر دیا ہے جس میں اسکول، یونیورسٹیاں، اسپتال، میڈیکل مراکز اور رہائشی عمارتیں شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کے مطابق یہ تمام اقدامات جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مختلف ذرائع ابلاغ جیسے سی این این، این پی آر، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور فرانس نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والی دیگر دسیوں رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ صیہونی فوج کی جانب سے غزہ میں بروئے کار لائے جانے والے امریکی ہتھیاروں کے باعث عام شہریوں اور امدادی کارکنوں کا قتل عام ہوا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو فوجی ہتھیار فراہم کرنا بند نہیں کیے تھے۔