ترتیب و تنظیم: علی واحدی
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے سکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل پاگل ہوں گے، اگر انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، کیونکہ یہ خطے کے لیے ایک خوفناک تباہی ہوگی۔ ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری جوہری تنصیبات پر کسی بھی حملے کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ امریکی یہ احمقانہ کام کریں گے۔ یہ واقعی پاگل پن ہوگا اور خطے کے لیے بہت بری مصیبت ہوگی۔ اس انٹرویو میں عباس عراقچی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کی تجویز کے جواب میں اسرائیلیوں کو گرین لینڈ بھیجنے کا مشورہ دیا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیلیوں کو گرین لینڈ بھیجنے کا مطلب ایک تیر سے دو شکار ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کے امریکی صدر کی تجویز نے خطے میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
عراقچی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی آمادگی کے بارے میں امریکی صدر کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "ایران کو امریکا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر راضی کرنے میں پچھلے دور کے مقابلے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔" انہوں نے مزید کہا ہے کہ صورتحال پچھلی بار کے مقابلے مختلف اور بہت زیادہ مشکل ہے۔ ہمارا اعتماد حاصل کرنے کے لیے دوسرے فریق کو بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے حماس اور حزب اللہ کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کو نقصان پہنچا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں، کیونکہ وہ ایک مکتبہ فکر اور ایک نظریہ ہیں، جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس انٹرویو کا مکمل متن درج ذیل ہے:
سوال: اسکائی نیوز سے بات کرنے کا شکریہ۔ آپ نے بہت مشکل وقت میں یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ خطہ افراتفری کا شکار ہے۔ ایران کو ناقابل تردید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وائٹ ہاؤس میں ایک ایسا شخص براجمان ہوا ہے، جو ایران کا دشمن رہا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اب ایران کیساتھ معاہدے کو آگے بڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس لیے خطرہ اور موقع دونوں موجود ہیں۔ کیا آپکو اس بات کا کوئی امکان نظر آتا ہے کہ ایران ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ کسی قسم کے معاہدے پر بات چیت کیلئے تیار ہو جائے گا۔؟
سید عباس عراقچی: ہماری حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ اس کی خارجہ پالیسی موثر، فعال، جامع اور متوازن ہو۔ نئی انتظامیہ کے تحت ایران کی خارجہ پالیسی تقریباً سب کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ صرف چند مستثنیات ہیں، جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دنیا کے تمام حصوں کے ساتھ سفارت کاری کے لیے تیار ہیں۔ بدقسمتی سے، جب میں نے اپنا کام شروع کیا، تو خطہ ایک مکمل جنگ کے دہانے پر تھا اور میرا بنیادی مقصد خطے میں ایک مکمل جنگ کو روکنا اور اس سے بچنا تھا اور کشیدگی میں مزید اضافے کو روکنا تھا۔ اس لیے میں نے خطے میں بہت فعال خارجہ پالیسی اپنائی۔ میں خطے کے تقریباً ہر اس ملک میں گیا، جس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں، یہاں تک کہ مصر اور بحرین جن کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ میں نے کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے خطے میں افہام و تفہیم اور مشترکہ آواز پیدا کرنے کی کوشش کی اور مجھے لگتا ہے کہ میں کامیاب رہا ہوں۔ چنانچہ گذشتہ 5، 6 ماہ میں ہماری خارجہ پالیسی بہت مصروف اور فعال رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے پرامن جوہری پروگرام پر ایک نئے معاہدے کے امکان کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جب میں حالیہ جنرل اسمبلی کے لیے نیویارک میں تھا تو میں نے یورپیوں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی میں نے چین اور روس سے بھی مشورہ کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اب بھی JCPOA یا ایران جوہری معاہدے کے فریق ہیں۔ ہم نے اپنے مذاکرات جاری رکھنے اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں ان غلط فہمیوں اور بداعتمادیوں کو دور کرنے، JCPOA یا کم از کم JCPOA کی منطق کی طرف لوٹنے کے لیے ایک نیا راستہ تلاش کرنے پر اتفاق کیا اور یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم اس میں کوئی نیا حل کیسے نکال سکتے ہیں، بہت مشکل وقت تھا۔ یقیناً یہ امریکہ میں الیکشن سے پہلے کا وقت تھا۔ انتخابات کے بعد ہم ابھی تک انتظار کر رہے ہیں کہ نئی حکومت کا لائحہ عمل اور پالیسیاں کیا ہوں گی۔ جوہری معاہدے کی منطق یہ ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بدلے ہمارے جوہری پروگرام پر اعتماد پیدا کیا جائے۔ یقیناً اس میں امریکہ کا بڑا حصہ ضرور ہے، کیونکہ زیادہ تر پابندیاں امریکہ نے لگائی تھیں۔
تو کیا ہم اسی منطق پر واپس آسکتے ہیں اور ون ون کی بنیاد پر مذاکرات دوبارہ شروع کرسکتے ہیں، یہ اب بھی ایک ایسی چیز ہے، جسے ہم دوسری طرف سے سننے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم دھمکی آمیز زبان کا جواب نہیں دیتے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور ہم اسے ماضی میں ثابت کرچکے ہیں، لیکن ہم احترام کی زبان سے جواب دیتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے۔ ہم نے جے سی پی او اے مذاکرات شروع کیے تھے اور ایک نتیجے اور معاہدے پر پہنچے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ساتھ احترام کی زبان اور باہمی احترام اور باہمی مفادات پر مبنی سلوک کیا گیا تو ہم حل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ہم کامیاب ہوئے اور پوری دنیا نے جشن منایا۔ تو ہم وہی تجربہ دہرانے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس دوسرے تجربات بھی ہیں۔ جب انہوں نے ہمیں دھمکیاں دیں، جب انہوں نے ہمارا بائیکاٹ کیا تو نتیجہ کیا نکلا؟ اب ہم اپنی پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ اب ہم اپنی دفاعی صنعتوں میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں اور اپنے دونوں پاؤں پر کھڑے ہوں۔ اس لیے پابندیوں نے کام نہیں کیا۔
سوال: ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کیساتھ معاہدہ ایک اچھا خیال ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ ایسے لوگوں کا تقرر کیا جا سکتا ہے، جو سفارتکاری کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کیساتھ سفارت کاری کا راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ایران بھی امریکہ سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔؟
سید عباس عراقچی: ہمارا ایک معاہدہ تھا۔ جے سی پی او اے کو سفارت کاری کا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا، پوری دنیا نے اسے مانا۔ سب نے ایران اور P5+1 کو سفارت کاری کے ذریعے ایک انتہائی مشکل مسئلے کو حل کرنے پر مبارکباد دی اور پھر نتیجہ کیا نکلا؟ اس کے بعد کیا ہوا؟ اس واقعے نے ایران اور امریکہ کے درمیان باقی ماندہ اعتماد کو تباہ کر دیا ہے۔
سوال: تو اب آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ آپکے ساتھ عزت سے پیش آئیں تو کوئی اچھا نتیجہ ملے گا؟ کیا آپ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں گے۔؟
سید عباس عراقچی: مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب ہمارے درمیان زیادہ عدم اعتماد ہے اور ہمیں پہلے اس بے اعتمادی پر قابو پانا چاہیئے۔ ایران کو ایک بار پھر مذاکرات میں داخل ہونے کے لیے کافی اعتماد چاہیئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اب بھی اس معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔
سوال: کس سے مذاکرات کریں؟ ان مذاکرات میں کون کون شریک ہیں؟ یہ ایسے سنجیدہ سوالات ہیں، جن کا جواب آنا باقی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنی پہلی انتظامیہ میں سے آپکے کچھ سخت ترین دشمنوں کو نکال دیا ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کو مقرر کیا ہے، جو سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، وہ ایسا شخص ہے، جو ایران سے دشمنی رکھتا ہے، لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ سودا کرنیوالا بھی ہے۔ کیا یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں آپکو لگتا ہے کہ آپ مستقبل میں اسکے ساتھ معاملہ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں؟ انکی آپکے ساتھ ہونیوالی تمام خراب تاریخ اور ماضی میں آپکو پیش آنیوالی تمام پریشانیوں کے باوجود۔؟
سید عباس عراقچی: میں کسی نظریئے کو رد نہیں کرتا۔ میں آپ کو یہ نہیں بتا رہا ہوں کہ ایران کسی قسم کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔ نہیں، لیکن ہم اس بار بہت محتاط ہیں۔ آخری بار جب ہم نے بات چیت کی تو ایک برا تجربہ تھا۔ اس برے تجربے کو کس طرح اچھے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔ اب بھی کچھ ابہام باقی ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کے پاس ایسے مشیر ہیں، جو انہیں ایران کی حقیقت بتا سکتے ہیں کہ ایران دھمکیوں اور ان کے جواب میں کیسا برتاؤ کرتا ہے۔ تو مجھے امید ہے کہ ان تجربات سے استفادہ کیا جائے گا۔
سوال: لیکن سب جانتے ہیں کہ کشیدگی کی اصل وجہ ایران کے امریکہ کیساتھ تعلقات ہیں، جو ایک عرصے سے کشیدہ ہیں۔ دنیا انتظار کر رہی ہے، اور جن ایرانیوں سے ہم نے یہاں بات کی ہے، وہ یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے۔ آپ ابھی افغانستان سے واپس آئے اور طالبان سے ملے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ بات چیت کی ہے۔ کیا آپ نئے صدر سے جو کچھ سنتے ہیں، اس سے امید کی کرن ہے۔؟
سید عباس عراقچی: انہیں ہمارا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔
سوال: تو آپ اسے مسترد نہیں کر رہے، لیکن آپ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ سے بہت کچھ سننا چاہتے ہیں۔؟
سید عباس عراقچی: یقیناً، ہم نے ابھی تک کوئی خاص بات نہیں سنی۔ ہمارے پاس 1+5 یا 3+3 پلیٹ فارم تھا، جیسا کہ یورپی لوگ کہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس آخری بار وہ پلیٹ فارم تھا اور ہم نے بات چیت کی تھی۔ کیا اس بار یہ سانچہ دوبارہ کام کرے گا۔؟ یہ ایک سوال ہے اور مذاکرات کی بنیاد کیا ہوگی۔؟ ہم نے ایک معاہدہ کیا تھا اور ہمارے پاس اب بھی ایک معاہدہ ہے۔ جے سی پی او اے اب بھی زندہ ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے علاوہ دیگر شرکاء ابھی بھی اس میں شامل ہیں۔ ہاں، ہم اپنے کچھ وعدوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمیں جے سی پی او اے کے حصے پر پابندیاں اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔ لیکن ہم اب بھی جے سی پی او اے کے رکن ہیں۔ ہم اب بھی متفق ہیں۔ روس اور چین اب بھی موجود ہیں۔ لہٰذا، جے سی پی او اے اس سال اکتوبر میں ایک بہت ہی اہم موڑ پر پہنچ رہا ہے، جو ایک بحرانی نقطہ ہوسکتا ہے اور مجھے خبردار کرنا چاہیئے کہ اگر ہم اس سے پہلے کسی اچھے حل تک نہیں پہنچ سکے تو سب شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفارت کاری کی کھڑکی ابھی بھی کھلی ہے، اگرچہ مختصر وقت کے لیے، بشرطیکہ دیگر فریق حقیقی آمادگی ظاہر کریں۔ ورنہ متبادل راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
سوال: اس سے مغرب میں تشویش پائی جاتی ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ متبادل راستے سے آپکا کیا مطلب ہے؟ کیونکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ طور پر ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل جائیگا۔ کیا آپکا یہی مطلب تھا۔؟
سید عباس عراقچی: ہمارے پرامن ایٹمی پروگرام میں ہتھیاروں کی تیاری کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر یقین ہے اور اس اعتماد کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے دیگر P5+1 جماعتوں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پروگرام کی پرامن نوعیت کے بارے میں ان کے سوالات تھے۔ خیر وہ باعزت زبان سے ہمارے پاس آئے اور پھر مذاکرات شروع میں کامیاب رہے، لیکن پھر یہ ایک برے تجربے میں بدل گیا۔ اس لیے پابندیاں واپس آگئی ہیں اور ہمیں جے سی پی او اے سے مزید فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن ہمارا پروگرام اب بھی پرامن ہے۔ اگر ہم اکتوبر تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر سلامتی کونسل کی پچھلی قراردادیں واپس آجاتی ہیں اور ایران ایک بار پھر چارٹر کے باب 7 کے تحت آتا ہے، تو اگر آپ خود کو ایک ایرانی تصور کرتے ہیں تو آپ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔؟ اس کا مطلب ہے کہ ہماری پالیسی غلط تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے شاید غلط راستے کا انتخاب کیا، کیونکہ ہم نے سفارت کاری کا راستہ انتخاب کیا اور ایک معاہدے پر پہنچ گئے، لیکن آخرکار تمام پابندیاں واپس آگئیں اور اگر ہم واپس سلامتی کونسل اور باب 7 کے تحت جاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے غلطی کی اور ہمیں اقوام متحدہ میں واپس جانا ہے، آیئے ایک متبادل تلاش کریں۔
سوال: اس کا متبادل کیا ہے۔؟
سید عباس عراقچی: مجھے نہیں معلوم۔ سچ کہوں۔ مجھے نہیں معلوم۔ کیونکہ یہ ابھی زیر بحث ہے۔ ایران میں اس متبادل کے بارے میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ جی ہاں بحثیں ہوتی ہیں اور یہ بحثیں ہر سطح پر بہت گرم ہوتی ہیں، یہاں تک کہ سڑکوں پر بھی اور عام لوگوں میں بھی۔ مختلف آراء ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ آخرکار کون غالب آئے گا، لیکن بحث جاری ہے۔ لیکن اکتوبر میں ہم اس مقام پر پہنچ جائیں گے، جہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کو بتایا کہ اس سال اکتوبر بحران کا مرکز بن سکتا ہے اور ہمیں اس سے بچنا چاہیئے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈپلومیسی اب بھی کام کرسکتی ہے، لیکن ہمیں تخلیقی، ایماندار اور شفاف اعتماد ظاہر کرنا ہوگا اور انہیں ہمارے لیے اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔ ہمیں مذاکرات کی میز پر کیوں واپس آنا چاہیئے؟ اس کی کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ لیکن اب کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سفارت کاری کی غلطی ہوسکتی ہے اور اس معاملے پر ملک میں مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔
صرف حکومت میں نہیں، ہر جگہ۔ یونیورسٹیوں میں جائیں اور پروفیسروں اور طلباء سے بات کریں، سب متبادل راستے پر غور و غوض کر رہے ہیں۔ میڈیا اور پریس کے پاس جائیں۔ بازار جا کر عام لوگوں سے پوچھیں۔ یہ سب کے لیے ایک بڑا سوال ہے۔ یہ متبادل صرف وہی نہیں ہے، جو آپ نے کہا ہے۔ مختلف آپشنز ہیں اور ہم ان سب پر کام کر رہے ہیں۔ نقطہ یہ ہے کہ اکتوبر تک پہنچنے سے پہلے، ہمیں اپنے پاس موجود وقت کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے اور ایک بہتر حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ آیئے ایک بار پھر سفارت کاری کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ماضی میں اس کا تجربہ کرچکے ہیں، کیوں نہ اس تجربے کو دہرایا جائے۔؟
سوال: بہرحال ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے، جو اپنی تمام تر غلطیوں کے باوجود اب کہہ رہا ہے کہ ایران کیساتھ معاہدہ اچھا ہوگا۔ کیا آپ اس مرحلے تک پہنچیں گے، جیسا کہ وہ پہنچا ہے؟ کیونکہ معاہدہ اچھا ہے۔؟
سید عباس عراقچی: صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ معاہدہ اچھا ہے اور ہم اس کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس برے تجربات ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی حکومت سمجھ گئی ہوگی کہ اس نے ہمیں برے تجربات کے ساتھ چھوڑ دیا ہے، بے اعتمادی کے بہت سے عناصر کے ساتھ۔ بہت سی چیزیں ہیں، جو ہمیں دوبارہ ان پر بھروسہ کرنے سے روکتی ہیں اور انہیں اس بے اعتمادی کو دور کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے درمیان موجود ہے۔ کیسے؟ مجھے نہیں معلوم۔ یہ ان پر منحصر ہے۔ تو ہم اپنے راستے پر چلتے ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام پرامن ہے اور ہم اس پرامن پروگرام کو جاری رکھیں گے۔ ہمیں اس وقت اپنا راستہ بدلنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ ایٹم بم کے حوالے سے فتویٰ ہے۔ یہ بہت اہم فتویٰ ہے۔ ایران آج بھی 50 سال پہلے NPT کا رکن ہے۔ ہمارا مقصد اپنے پروگرام کی پرامن نوعیت میں زیادہ اعتماد پیدا کرنا ہے تو یہ ہمارے اثاثے ہیں۔ اب ہم متبادل کے بارے میں کیوں بات کریں۔؟
سوال: لیکن وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شاید متبادل کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے سپریم لیڈر کے مشیر کمال خرازی سے سنا ہے کہ اگر کوئی خطرہ ہوا تو ایران اپنی پالیسی بدل سکتا ہے۔؟
سید عباس عراقچی: ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمارا نظریہ تبدیل نہیں ہوا ہے اور اس وقت ہمارا اسے تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سوال: کیا آپ ڈونلڈ ٹرمپ کو کم از کم انکی بات سننے کا موقع دینے کیلئے تیار ہیں؟ اور اگر وہ صحیح باتیں کہتا ہے اور آپکے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے تو کیا آپ اس سے بات کرینگے۔؟
سید عباس عراقچی: ہم نے دن رات امریکیوں سے مذاکرات کئے۔ میں اس کا ایک حصہ تھا۔ میں نے دو طرفہ اور کثیر جہتی دونوں طرح سے امریکیوں کے ساتھ دن رات بات چیت کی۔ لہٰذا ہم نے بات چیت کے ذریعے حل تک پہنچنے کے لیے اپنی نیک نیتی ثابت کر دی ہے۔ لہٰذا کسی حل تک پہنچنے کی خواہش اب بھی موجود ہے، لیکن یہ بہت سے عوامل پر منحصر ہے۔ اس سے پہلے بہت سے دوسرے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔
سوال: آیئے اسرائیل کی بحث کیطرف چلتے ہیں۔ کیونکہ میرے خیال میں اسرائیل سے خطرہ ہے۔ ہم نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے سنا ہے کہ ایران پر حملہ کرنے کیلئے اس سے بہتر کوئی وقت نہیں آیا، کیونکہ ایران اسوقت کمزور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو وہ اس سلسلے میں اسرائیل کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ آپ اس امکان کے بارے میں کتنے پریشان ہیں۔؟
سید عباس عراقچی: وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے، کیونکہ وہ جواب دینے کی ہماری صلاحیتوں سے واقف ہیں اور ہم نے واضح کیا ہے کہ ہماری جوہری تنصیبات پر کسی بھی حملے کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا ردعمل کیا ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسی احمکانہ حرکت کریں گے۔ یہ واقعی پاگل پن ہے اور خطے میں ہر چیز کو ایک بڑی تباہی میں بدل دے گا۔ میں اس پر بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ کیوں؟ کیونکہ مجھے یہ خطرہ حقیقی نہیں لگتا۔ یہ ایک ختم شدہ خطرہ ہے۔ تو آئیے ڈپلومیسی کی بات کرتے ہیں۔ آئیے بات کرتے ہیں کہ ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے۔
سوال: ایک اور مسئلہ اسرائیل، فلسطین اور غزہ کا ہے۔ گذشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایک آپشن ہوسکتا ہے کہ غزہ کو خالی کر دیا جائے۔ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ کیا یہ ایران کیلئے سرخ لکیر ہے؟ اور اگر ایسا ہوا تو ایران کا ردعمل کیا ہوگا۔؟
سید عباس عراقچی: آئیے یہ نہ بھولیں کہ بالآخر اسرائیلی اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں حماس کے ساتھ مذاکرات کرنا ہیں۔ وہ حماس کو تباہ کرنے کے لیے گئے تھے، لیکن آخرکار وہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوئے۔ تو میری تجویز کچھ اور ہے۔ فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلیوں کو نکالنے کی کوشش کریں۔ ایک تیر سے دو شکار کرنے کے لیے اسرائیلیوں کو گرین لینڈ لے جائیں۔ تاکہ گرین لینڈ کا مسئلہ حل ہو جائے اور اسرائیلی بھی وہاں آباد ہو جائیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین میں رہنے کا حق ہے۔؟
سید عباس عراقچی: ہر کسی کو جینے کا حق ہے، لیکن کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرے۔ یہ فلسطینیوں کی سرزمین ہے اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین اور اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اسرائیلیوں یا یہودیوں کو جینے کا حق نہیں ہے۔ یقیناً انہیں زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہم اس بات پر بات کر رہے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا انتظام کیسے کیا جائے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ واحد حل "ایک ریاستی" حل ہے۔ دوسرے دو ریاستی حل کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ حل "ایک ریاستی" حل میں مضمر ہے۔ فلسطین ایک ملک ہے۔ ہمیں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے، جہاں اس سرزمین کے تمام اصل باشندے خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، ایک ساتھ رہیں اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ریفرنڈم میں حصہ لیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
ہمیں جدید تاریخ میں حال ہی میں اس طرح کا تجربہ ہوا ہے۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستانہ حکومت تھی، جو ایک نئی جمہوری حکومت بن گئی۔ لہٰذا ہمارا مسئلہ فلسطین کا حل جمہوری حل کی طرف بڑھنا ہے۔ آپ تمام فلسطینیوں کو نہیں مار سکتے۔ آپ تمام فلسطینیوں کو بے دخل نہیں کرسکتے۔ آپ تمام گھروں کو تباہ نہیں کرسکتے۔ وہ ماضی میں بھی یہ کام کرچکے ہیں، لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انہیں یہ تجربہ گذشتہ 15 مہینوں میں بھی ہوا، لیکن اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ صیہونیوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔
سوال: آپ نے کہا کہ آپ اسے فلسطینیوں کی فتح کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ اسے فتح کیسے کہہ سکتے ہیں، حالانکہ کم از کم 50,000 فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔؟
سید عباس عراقچی: جنگ میں فتح کی تعریف مرنے والوں کی تعداد سے نہیں ہوتی۔ کیا وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں؟ اسرائیل غزہ میں داخل ہوا، جیسا کہ اس کا دعویٰ تھا، حماس کو تباہ کرنے اور اپنے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے۔ ان مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں ہوا۔ یقیناً ان میں سے کوئی بھی فتح فلسطینیوں کے لیے قیمت کے بغیر نہیں آئی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ فلسطینیوں کا انتخاب ہے۔ انہوں نے گزشتہ 80 سالوں میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور مشکل وقت میں بھی انہیں قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن انہوں نے مزاحمت کی اور اس کا مطلب ثابت قدمی ہے۔
سوال: پچھلے ایک سال میں ہم نے حزب اللہ کی شدید کمزوری کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہم نے ایران کے قریبی اتحادی حسن نصراللہ کی موت کا مشاہدہ کیا۔ ہم نے تہران میں حماس کے رہنماء اسماعیل ہنیہ کا قتل بھی دیکھا۔ ہم نے آپکے اتحادی بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹتے دیکھا۔ کیا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آپکی حکمت عملی اب کام نہیں کر رہی ہے۔؟ کیا آپکو مکمل طور پر دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ خطے میں کس طرح کام کریں۔؟ کیونکہ جو چیزیں ہوچکی ہیں میرا مطلب ہے، آپکو یقینی طور پر اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ نے اس سال بہت کچھ کھو دیا ہے۔ جن اتحادیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ وہ اتحادی جو دشمنوں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکے ہیں۔ کیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ پچھلے ایک سال میں چیزیں ایران کے حق میں نہیں گئیں۔؟
سید عباس عراقچی: میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے ایک سال کے دوران خطے میں مزاحمت کو کئی سنگین ضربیں لگیں، لیکن ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ مزاحمت ایک مکتبہ فکر اور ایک نظریہ ہے۔ جب لوگ مارے جاتے ہیں تو یہ نظریہ ختم نہیں ہوتا۔ جس طرح گذشتہ 80 سالوں میں فلسطینی کاز دم توڑ نہیں سکی ہے۔ کئی رہنماوں کی شہادتوں کے باوجود یہ کاز زندہ ہے۔ مزاحمت کا نظریہ ایک ہی ہے۔ یہ درست ہے کہ حماس اور حزب اللہ کو کافی نقصان پہنچا ہے، لیکن وہ خود کو دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مکتبہ فکر اور یہ نظریہ ختم نہیں ہوگا۔ میں آپ کو ایک مثال دینا چاہتا ہوں؛ انقلاب فرانس کو یورپ اور امریکہ میں بہت سے نظریات اور افکار کی ماں سمجھا جاتا ہے، لیکن دیکھئے کہ یہ بعد میں کیسے بدلا۔ ہمارے پاس نپولین کی واپسی تھی، ہمارے پاس آمریتیں تھیں اور حکومت کی دوسری شکلیں تھیں، لیکن انقلاب فرانس سے شروع ہونے والے نظریات آج بھی مغربی ممالک میں موجود ہیں۔
اس نظریہ نے مختلف شکلیں اختیار کیں، لیکن بنیادی نظریہ اب بھی موجود ہے۔ اس کا اطلاق فلسطینی مزاحمت پر بھی ہوتا ہے اور بین الاقوامی میدان میں یہ اتار چڑھاؤ فطری ہے۔ پچھلے ایک سال میں مزاحمت کو بہت سی فتوحات بھی ملی ہیں۔ ناکامی بھی ملی ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ آپ خود کو دوبارہ بنائیں اور اپنے راستے پر چلتے رہیں۔ عوام حماس اور حزب اللہ کی حمایت جاری رکھیں گے اور انہیں اقتدار میں واپس لائیں گے، تاکہ وہ پہلے کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرسکیں۔ حماس اور حزب اللہ آزاد ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ ہم ہمیشہ ان کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں اور کریں گے۔ مستقبل میں یہ ان کے اپنے فیصلے پر منحصر ہوگا۔ اگر وہ ایران سے مدد مانگیں گے تو ہم یقیناً ان کا مثبت جواب دیں گے۔
سوال: میرے خیال میں بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ ایران کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ انکی رائے میں ایران کو متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیئے اور ان اتحادیوں کی حمایت کرنا چھوڑ دینا چاہیئے، جو خطے میں اسرائیلی حکومت اور امریکی اثر و رسوخ کیلئے کانٹے کی حیثیت رکھتے ہیں۔؟
سید عباس عراقچی: لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقابل کو اپنی حکمت عملیوں اور پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور پہلے کبھی اتنا الگ تھلگ نہیں ہوا تھا۔ اسرائیل کے لیے یہ تنہائی بے مثال ہے۔ اسرائیل غزہ یا لبنان میں سے کسی ایک میں بھی اپنے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کرسکا اور حزب اللہ کو متعدد زخموں کے باوجود وہ جنوبی لبنان میں 33 روزہ جنگ سے آگے بڑھنے میں ناکام رہا اور اسے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس لیے سب سے پہلے اسرائیل کو اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حزب اللہ نے اپنے لیڈر کو کھو دیا ہے یا اس کے کمانڈر شہید ہوئے ہیں، وہ پہلے سے مضبوط اور وسیع تر ہو کر سامنے آئے۔ یہی حال فلسطینیوں کا بھی ہے۔ 80 سال کی قتل و غارت ان کی روح اور نظریات کو ختم نہیں کرسکی۔ لہٰذا جب ہم آئیڈیل کی بات کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ نظریہ تبدیل نہیں ہوتا۔ حکمت عملی بدل سکتی ہے، لیکن اصول اور نظریہ ہمیشہ موجود رہے گا۔
سوال: کل بازار میں ایک عورت نے مجھے بتایا کہ ایران اپنا سارا پیسہ دوسروں پر خرچ کر رہا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جب ایرانیوں کو ملک کے اندر پیسوں کی ضرورت ہے، لیکن حکام دوسرے ممالک کی مدد کیلئے بہت زیادہ رقم بھیج رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ آپ نے بشار کی حمایت میں اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ آپ نے اسد پر پیسہ خرچ کیا اور وہ اب گر گیا ہے۔ یہ پیسے کا مکمل ضیاع نہیں ہے۔؟
سید عباس عراقچی: لوگوں کی رائے مختلف ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ اپنے اصولی فیصلے بازار میں موجود ایک مرد یا عورت کے کہنے پر نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ایران نے اپنی سلامتی کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور کرتا رہے گا۔ ہم نے مزاحمت کو آگے بڑھانے کے لیے بھی بہت مدد فراہم کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے ملک کی معاشی ترقی کے لیے کام کیا ہے اور اچھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میں نے بہت سے سفارت کاروں سے بات کی ہے، جو ایران آئے ہیں اور تہران گئے ہیں۔ وہ یقین نہیں کرسکتے کہ وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ وہ تہران ہے، جو چالیس سالوں سے امریکی پابندیوں کے شکنجے میں رہا ہے۔ ہم نہ صرف تہران بلکہ ایران کے تمام شہروں میں نمایاں پیش رفت دیکھ رہے ہیں۔ تو ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ملک کا پیسہ صرف دوسروں پر خرچ کیا۔ یہ اخراجات ہم نے اپنی سلامتی کے لیے کیے ہیں اور یہ ضروری ہے اور تمام ممالک ایسا کرتے ہیں۔
سوال: 50% مہنگائی اور 25% بے روزگاری کیساتھ؟ آپکی قومی کرنسی کی ویلیو اتنی کم نہیں تھی، جتنی اب ہے۔ یہ کامیابیاں تو نہیں ہیں۔ آپکے بہت سے لوگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ صرف تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں زندگی ناممکن ہے۔ ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ ہر وہ شخص جسے وہ جانتی ہے، ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تو آپکو یقینی طور پر اندر سے بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، کیا ایسا نہیں؟ یا یہ حکومتی بدانتظامی نہیں ہے۔؟
سید عباس عراقچی: یہ نہ بھولیں کہ ہم امریکہ اور کچھ یورپی ممالک کی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی کے تحت رہتے ہیں۔ یہ مت بھولیں کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اب بھی موجود ہے، کیونکہ، آپ جانتے ہیں کہ اس پالیسی پر پچھلی انتظامیہ (بائیڈن) نے بھی عمل کیا تھا۔ تو یہ وہ دباؤ ہیں جو اب بھی موجود ہیں اور ہاں، اس کا ایک حصہ بدانتظامی کی وجہ سے بھی ہے۔ لیکن ہم ان سب کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے مسائل اور کوتاہیاں ہیں، لیکن ہم عموماً ان مسائل کو سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ ایران ہے اور یہ تہران ہے، جو 40 سال سے امریکی پابندیوں میں رہا ہے اور آپ دیکھیں کہ تہران میں زندگی کیسی ہے۔ آپ بازار گئے ہیں اور دیکھا ہے کہ کیا ایسے بازار عالمی پابندیوں کے تحت ہوسکتے ہیں۔؟
سوال: ایک اور مسئلہ جو حالیہ برسوں میں ایرانیوں کے ایجنڈے پر رہا ہے، وہ خواتین کے حقوق ہے۔ آپکی حکومت، آپکے صدر نے حجاب اور حیا کے نئے قانون کے نفاذ میں تاخیر کی ہے، اس پر تنقید کرتے ہوئے اسے مبہم اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ کیا یہ اعتراف ہے کہ پچھلی حکومت نے خواتین کے حقوق کا صحیح طور پر احترام نہیں کیا اور اس حوالے سے غلطیاں کیں۔؟
سید عباس عراقچی: ایرانی رائے عامہ میں حجاب کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حجاب کے بارے میں مختلف آراء ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ ہم سب کو قانون کی پابندی کرنی ہوگی۔ قانون میں تبدیلی پر مختلف آراء ہیں۔ ملک میں ہمارے قانونی ادارے اور ان کے طریقہ کار ان خیالات پر توجہ دیتے ہیں۔ اسلامی مشاورتی اسمبلی، ایکسپیڈینسی ڈسرنمنٹ کونسل اور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل اس مسئلے پر کام کر رہی ہیں۔ ہم ان قوانین کے تابع ہیں، جو اس سلسلے میں نافذ ہیں۔ درحقیقت کچھ لوگ قانون کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ اور بھی ہیں، جو قانون کو مضبوط اور سخت بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ سازوں پر منحصر ہے۔ لہٰذا، جو بھی قانون کے طور پر منظور ہوتا ہے، ہم سب کو اس پر عمل کرنا چاہیئے۔
سوال: 2025ء میں زیادہ تر مردوں پر مشتمل حکومت میں مرد ہونے کے ناطے، آپکو کیا حق ہے کہ خواتین کو بتائیں کہ وہ کیسے رہ سکتی ہیں۔؟
سید عباس عراقچی: موجودہ حکومت وہ ہے، جس کی کابینہ میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کاروباری یا سماجی اور ثقافتی کاموں میں مصروف خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ سیاست یا پارلیمنٹ میں نمائندگی کے میدان میں بھی۔ یقیناً ان کی تعداد ابھی کافی نہیں ہے، لیکن یہ نہ بھولیں کہ ہم نے یہ عمل ابھی شروع کیا ہے۔ ایک بار پھر، یہ نہ بھولیں کہ ایران نے اپنی جمہوریت صرف 45 سال پہلے شروع کی اور اس سے پہلے ہم امریکی حمایت یافتہ آمریت کے تحت تھے۔ ایک کرپٹ خاندان نے ایران پر حکومت کی اور اسے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے خطے میں امریکی مفادات کی خدمت کی۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مغرب میں جمہوریت یا جمہوری اداروں کو مضبوط ہونے میں برسوں لگے ہیں، لیکن ہم نے ابھی آغاز کیا ہے۔ دریں اثناء، ہماری زندگی کا اپنا طریقہ اور روش ہے۔