تحریر: علی واحدی
جنگ بندی کے اعلان اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف 15 ماہ کی نسل کشی کے خاتمے کے بعد، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے نو ممالک نے فلسطین کی حمایت کے لیے ہیگ گروپ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ ان نو ممالک کے نمائندوں نے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کی میزبانی میں دی ہیگ میں منعقدہ ایک اجتماع میں صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کے باعث اس کے خلاف سفارتی اور اقتصادی اقدامات پر زور دیا ہے۔ جنوبی افریقہ، ملائیشیا، نمیبیا، کولمبیا، بولیویا، چلی، سینیگال، ہونڈوراس اور بیلیز کے نمائندوں نے باہمی مذاکرات کے بعد اعلان کیا کہ انہوں نے یہ گروپ فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے بنایا ہے۔ دی ہیگ میں فلسطین کی حمایت کرنے والے نو ممالک کے بیان میں کہا گیا ہے: ہم بین الاقوامی جرائم کے سامنے غیر فعال نہیں رہ سکتے اور ریاست فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور اس کے ناقابل تنسیخ حق کے حصول کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت بشمول ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پرعزم ہیں۔
غزہ کی پٹی میں 15 ماہ کے گھناؤنے صیہونی جرائم کا ایک نتیجہ جعلی اسرائیلی حکومت کا حقیقی چہرہ فاش ہونا ہے۔ بچوں کی قاتل صیہونی حکومت، جس کی بنیاد لاکھوں فلسطینیوں کے قبضے، قتل اور بے گھر ہونے پر رکھی گئی ہے، گذشتہ 76 سالوں میں کبھی بھی عالمی سطح پر اتنی بدنام نہیں ہوئی، جو اس وقت ہو رہی ہے۔ موجودہ صورت حال صیہونی حکومت کے جعلی وجود کے لیے چیلنج بن گئی ہے۔ گذشتہ سات دہائیوں کے دوران صیہونیوں نے ہمیشہ فلسطین میں یہودیوں کی موجودگی اور فلسطینی سرزمین پر قبضے کے سلسلے میں جھوٹے بیانات کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر اپنے قبضے اور نقل مکانی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر بالخصوص مغربی ممالک میں ہونے والے ہر احتجاج اور تنقید کو یہود دشمنی قرار دیتے ہوئے مذمت کی گئی ہے۔
مغربی حکومتیں ہمیشہ صہیونیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتی رہی ہیں۔ صہیونی جرائم کے خلاف تنقید اور احتجاج میں ملازمت سے برخاستگی، جرمانے اور قید تک کی سزائیں ہوتی ہیں۔ لیکن گذشتہ 15 مہینوں میں دنیا نے فلسطینی عوام کی صورتحال اور صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں بیداری کا بھرپور مشاہدہ کیا ہے۔ فلسطینی یورپی میڈیا سینٹر نے اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے 470 دنوں کے دوران یورپ نے اپنے بیس ممالک کے 619 شہروں میں 30,000 سے زیادہ مظاہرے اور احتجاجی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔ عالمی رائے عامہ بالخصوص مغربی رائے عامہ کی بیداری کا ایک اور پہلو ان اداروں میں یورپی ممالک اور امریکہ کے وسیع اثر و رسوخ کے باوجود صہیونیوں کے خلاف بعض بین الاقوامی اداروں کا فعال ہونا ہے۔
بعض ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ جو کہ نسل پرستی کا شکار ہے، اس نے صہیونیوں کے جرائم کی مذمت اور غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ دسمبر 2023ء میں، جنوبی افریقہ نے نسل کشی کنونشن (1948ء) کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا۔ کولمبیا، نکاراگوا اور میکسیکو جیسے ممالک کی شمولیت سے یہ کیس مضبوط ہوا۔ جنوری 2024ء میں، بین الاقوامی عدالت انصاف نے عبوری احکامات جاری کیے، جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ نسل کشی کی کارروائیوں کو روکے اور غزہ تک انسانی رسائی کو یقینی بنائے۔ اگرچہ صہیونیوں اور ان کے امریکی اور یورپی حامیوں نے اس حکم پر کوئی توجہ نہیں دی، لیکن اس حکم کا جاری ہونا عالمی میدان میں جعلی اسرائیلی حکومت کے منہ پر ایک قانونی اور سیاسی طمانچہ تھا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کی گئی شکایت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر جنگ یوو گیلنٹ کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ اب بعض ممالک کی جانب سے عالمی سطح پر فلسطینی بچوں کی قاتل جنگی مشین کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ غزہ جارحیت سے پہلے تک یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ عالمی سطح پر جعلی اسرائیلی حکومت کو یورپ میں کوئی چیلنج کرسکتا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ زیادہ تر یورپی ممالک جو جعلی اسرائیلی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے رکن ہیں اور موجودہ صورتحال میں اگر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر جنگ یوو گیلنٹ یورپ کا سفر کرتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے رکن کی حیثیت سے گرفتار کرنا ہوگا۔
غزہ میں صیہونیوں نے یہ جنگ نہ صرف حماس اور فلسطینی جنگجوؤں کے ہاتھوں ہاری ہے بلکہ عالمی رائے عامہ میں بھی اسرائیل کو شکست ہوئی ہے۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں ہیگ گروپ کی تشکیل اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عالمی سطح پر صیہونیوں کے خلاف جنگ جاری ہے۔ ہیگ گروپ کے رکن ممالک میں سے ایک نمیبیا کے وزیر انصاف نے الجزیرہ کے ساتھ انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ اس گروپ کو بنانے کا مقصد فلسطین اور اس کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرنا ہے۔ نمیبیا کے وزیر انصاف نے کہا ہے کہ ہیگ گروپ مسئلہ فلسطین پر عالمی توجہ مبذول کرانے کے لیے بین الاقوامی نظام کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔