0
Tuesday 4 Feb 2025 21:49

جدید جاہلیت (Modern Ignorance)

جدید جاہلیت (Modern Ignorance)
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

کسی مفکر نے کہا تھا کہ جدید جاہلیت قدیم جاہلیت سے خطرناک تر ہے۔ قائل کا یہ قول بالکل درست ہے، جب ہم جاہلیت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف ان پڑھ ہونا نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک جاہلیت کا معروف معنی ان پڑھ بھی اس میں شامل ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک جاہلیت سے مراد ایک ایسا رویہ ہے، جو صفات ذمیمہ پر مشتمل ہو۔ وہ رویہ جس میں تمام پست صفات موجود ہوں۔ ہمارے نزدیک جاہلیت سے مراد درندگی کا رویہ ہے، حق کی مخالفت کا رویہ کمزوروں اور مستضعفین پر ظلم کا رویہ۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تمام عادات بد عربوں میں موجود تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد ہر بری عادت کے خلاف جہاد کیا۔ عرب اخلاقی پستی کے قعر مذلت میں گرے ہوئے تھے، وہ جنسی بے راہروی کا شکار تھے اور شرم و حیا کی اعلیٰ صفات سے محروم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جاہلیت کا خاتمہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلیٰ اخلاقی روایات قائم فرمائیں۔ احکام خداوندی کے ذریعے عرب کے جاہلی معاشرے کو اعلی روایات کا امین معاشرہ بنا دیا۔

آج کی دنیا میں اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہمیں واضح نظر آئے گا کہ جن عادات بد اور مکروہ روایات کا جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقابلہ کیا تھا، وہ آج بھی مغربی معاشروں میں بہت شدت سے موجود نظر آتی ہیں۔ یہ چیزیں عرب کے جاہلی معاشرے میں تو غیر منظم تھیں، مگر آج مغربی معاشروں میں یہ بہت منظم طریقوں سے پائی جاتی ہیں۔ مغربی معاشروں کی بنیادیں حرص، لالچ اور خود غرضی پر ہیں۔ مغربی دنیا کی زندگی میں پیسہ بنیادی اہمیت کی حامل چیز ہے۔ ہر چیز کو پیسے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سیاست اور اقتدار کی بنیاد بھی پیسہ ہی ہے، اخلاق اور روحانیت کو بھی پیسے ہی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ کارپوریٹ کمپنیوں کو ترقی دی جا رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

ایک دور تھا، جب سائنس کو انسانیت کی جان بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن آج وہی سائنس ایٹم بم اور کیمیائی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور خدا جانے آئندہ کتنے لوگ ان مہلک ہتھیاروں کے ذریعے آگ کا ایندھن بنیں گے۔ ہم جنس پرستی، بے راہ روی، زنا، کرپشن، الغرض آج وہ سب چیزیں دنیا میں موجود ہیں، جن سے با کرامت انسان جانور بلکہ اس سے بھی بدتر ہو رہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اعلان نبوت کے وقت بھی تھیں، مگر غیر منظم اور محدود تھیں، لیکن آج ان تمام چیزوں کو غلط جواز عطا کرنے کے لیے فکری اور منطقی جواز تراشے جا رہے ہیں۔ ان کے جواز کی علمی اور فکری بنیادیں تیار کرکے انسانیت کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں۔ لہذا جاہلیت آج بھی موجود ہے، مگر یہ جدید اور ماڈرن جاہلیت ہے۔ یہ جہالت کی ایک نئی شکل ہے، جس کا مہذب دنیا کو سامنا ہے۔

اس جدید جاہلیت کے مقابلے کے لیے ہمیں وہی اہم کام کرنے ہوں گے، جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیے تھے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقیدے کو متعارف کرایا اور اسے بہت مضبوط کیا۔ میرے خیال کے مطابق ایمان کی تقویت کے لئے سب سے بڑا کام ہے، جو مسلمانوں کو سرانجام دینا چاہیئے۔ آج پوری دنیا میں الحاد اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور اس سے اسلامی دنیا شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ہمیں ایمان اور استقامت علی الایمان پر بہت کام کرنا ہوگا۔ مسلم دنیا میں دو قسم کے گروہ پیدا ہوچکے ہیں، ایک لبرلز اور دوسرے شدت پسند۔ دونوں ہی مذہب کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ہمیں اس جدید جاہلیت کو پہلے سمجھنا ہوگا، پھر اس کے مقابلے کے لیے بہت مضبوط منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اسلامی دنیا میں ابھی تک یہ احساس بھی بیدار نہیں ہوا کہ یہ جاہلیت ہماری تہذیب و تمدن کو کتنا کھوکھلا کر چکی ہے۔

ہمیں صرف اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی دنیا میں ایک ایسا ملک نظر آتا ہے، جس نے اس جدید جاہلیت کو سمجھا ہے اور اس کے خلاف کام بھی کر رہا ہے، جبکہ خلیجی ممالک اور عرب کا وہ خطہ جہاں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قدیمی جاہلیت کو ختم فرما دیا تھا، وہاں یہ قدیمی جاہلیت جدید انداز میں واپس لوٹ رہی ہے، جو عالم اسلام کے لیے کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ جدید جاہلیت دنیا کے ہر خطے میں مساوی نہیں ہے۔کہیں بہت زیادہ ہے اور کہیں کم۔ بعض ممالک میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس جہالت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ امریکہ اس جدید جاہلیت کا سب سے بڑا ماڈل ہے۔ امریکی حکومت بے راہ روی اور بداخلاقیات کو پھیلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہے اور اس پر اپنے سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ بھی کرتی ہے۔

آج دنیا میں یہ جاہلیت پھیلانے اور بحرانوں کو پیدا کرنے میں امریکہ کا مرکزی کردار ہے۔ امریکی حکومت بحران پیدا کرکے خوش ہوتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ بحران پیدا کرنا امریکیوں کی عادت بن چکا ہے۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک میں بحران پیدا کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ دہشت گرد ملک بحرانوں کے خطے تلاش کرتا ہے اور وہاں بحران کا مرکز بناتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں اس نے بحرانوں کے کئی مراکز پیدا کیے ہیں۔ اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے بحران اور اس کا مرکز بناؤ اور پھر اس کو اپنا اسلحہ بیچو۔ اگر یہ ایسا نہ کرے تو اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بند ہو جائیں اور ان کو تالے لگ جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے افغانستان عراق، شام اور اس خطے میں بحران پیدا کیے اور ان مذکورہ ممالک کے قدرتی وسائل کو ایک ڈاکو کی طرح لوٹا اور ہنوز لوٹ رہا ہے۔

اس نے ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو سپورٹ کیا اور اس کا تحفظ بھی کیا۔ یہ صبح و شام جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والا مجرم ملک امریکہ کا “کماؤ بیٹا” ہے۔ اسرائیل پر عنایات صرف اور صرف بحران پیدا کرنے کی وجہ سے ہیں۔ غزہ میں 50 ہزار سے زائد معصوم جانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ غزہ پر بارود کی بارش اور مہلک ہتھیار امریکہ سے ہی درآمد ہوئے تھے۔ امریکہ بحران پیدا کرنے کے لیے ایک دوست ملک بناتا ہے اور ایک دشمن۔۔۔۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا پوری دنیا میں کوئی دوست نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دشمنی بری ہے، مگر اس کی دوستی اس کی دشمنی سے بھی زیادہ بری ہے۔ اگر کوئی ملک امریکہ کو اپنا دوست سمجھتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اگر کوئی ملک امریکہ کو دوست سمجھ کر اس پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے تو اسے افغانستان اور یوکرین سے پوچھ لینا چاہیئے۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ جب افغانستان کا صدر اشرف غنی افغانستان سے فرار ہو رہا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ہم نے امریکہ اور مغربی طاقتوں پر بھروسہ کیا تھا، مگر انہوں نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔ جی ہاں! مغرب اور امریکہ تو ایسے ہی کرتے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک کو امریکہ کے ان دوست ممالک سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ ملت اسلامیہ کو اپنی عوام پر توجہ کرنی چاہیئے۔ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت پر زرکثیر خرچ کرنا چاہیئے۔ ان کی دانش و بینش میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کے عوام اس کی خود مختاری کے بہت بڑے پشت پناہ ہوتے ہیں، اگر وہ دشمن کے مقابلے میں میدان عمل میں کھڑے ہو جائیں تو کوئی بھی بڑے سے بڑا ملک اسے شکست نہیں دے سکتا۔ کسی بھی ملک کی آزادی کا اصل ستون اس کی عوام ہوتے ہیں۔

اس حقیقت کو ہم غزہ اور اسرائیل کے معرکہ میں بچشم خود دیکھ چکے ہیں۔ غزہ کے ہزاروں عوام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، مگر کسی ایک بھی فلسطینی مسلمان نے اپنی مادر وطن سے غداری نہیں کی۔ افغانستان ہو کہ عراق، داعش کو شکست عوام نہیں دی ہے۔ دشمن کو عوام شکست دیتے ہیں اور عوام کو ان کا باہمی اتحاد مضبوط کرتا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ امریکہ اور مغربی قوتیں اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھانے کے لیے اتنی بڑی سرمایہ کاری کیوں کرتی ہیں۔ آج مغرب عالم اسلام میں مذہبی، نسلی اور دیگر اختلافات بڑھانے کے لیے مضبوط حکمت عملی کے ساتھ میدان عمل میں ہے۔ مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک ایک دوسرے کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم دشمن کی ان چیرہ دستیوں کو سمجھ جائیں۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1188638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش