1
Sunday 2 Feb 2025 21:20

اسلامی مزاحمت کی پیٹھ میں ابومازن کا خنجر

اسلامی مزاحمت کی پیٹھ میں ابومازن کا خنجر
تحریر: علی احمدی
 
غزہ میں 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ رک جانے کے بعد اب مختلف سیاسی حلقوں میں اس موضوع پر گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے کہ خطے کا مستقبل کیا رخ اختیار کرے گا؟ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی و سیکورٹی اداروں کی گذشتہ توقعات کے برخلاف غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا ملٹری ونگ عزالدین قسام بٹالینز پوری قوت سے موجود ہے اور عوام کی بھرپور حمایت سے فلسطینی مجاہدین نے قیدیوں کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت زندہ اور باقی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ابومازن محمود عباس کے ممکنہ جانشین حسین الشیخ سے ملاقات کی ہے۔
 
ایک اندازے کے مطابق اس ملاقات میں جو موضوع زیر بحث لایا گیا ہے وہ غزہ پر بھی فتح آرگنائزیشن کی حکومت قائم کرنے کی حکمت عملی تلاش کرنا ہے۔ ویٹکاف اور حسین الشیخ کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی ایلچی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ مشرق وسطی خطے کے مستقبل کے بارے میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کا نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ وائٹ ہاوس سعودی حکمرانوں کی وساطت سے فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ غزہ پر حکمرانی کے لیے فلسطین اتھارٹی کا ممکنہ امیدوار زیاد ابو عمرو ہے جو محمود عباس کا مشیر اور قریبی ساتھی ہے۔ وہ غزہ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 2014ء کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی یہ کہہ کر شدید مخالفت کی تھی کہ اسرائیل ایسا نہیں چاہتا۔
 
فلسطین اتھارٹی، جو فتح آرگنائزیشن کی ایک شاخ ہے، بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی سیکولر تنظیم ہے اور اس کی تشکیل سرد جنگ کے دوران انجام پائی تھی جب سامراج مخالف افکار اپنے عروج پر تھے۔ اگرچہ اس تنظیم نے کئی عشروں تک غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد انجام دی لیکن 1990ء کے عشرے میں تل ابیب سے سازباز کا راستہ اختیار کیا اور غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ اوسلو 1 اور اوسلو 2 معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ غاصب صیہونی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کے باعث اس وقت غزہ کی پٹی کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی فلسطین اتھارٹی سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے سیاسی اداروں نے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں وہ شدید کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
جب فتح آرگنائزیشن غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور چلانے میں ناکام ہو گئی نیز اس نے 2006ء میں پارلیمانی الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تو غزہ کی پٹی میں حماس نے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا۔ حماس کو فتح آرگنائزیشن کی حکومت کے خلاف اس جدوجہد میں عوام کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔ دوسری طرف امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت بچانے کی خاطر اس پر دباو ڈالا کہ وہ اپنے اندر سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات انجام دے۔ پہلے مرحلے میں فلسطین اتھارٹی کو محمود عباس کی پوزیشن واضح کرنی تھی جو آٹھ سال سے صدر تھے اور عوام میں ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگلے قدم میں فتح آرگنائزیشن کو قومی آمدن کی منصفانہ تقسیم کی جانب آگے بڑھنا تھا جس کے تحت مزید فلسطینی عوام کو بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا جانا تھا۔
 
واشنگٹن کے سیاسی اداروں کی راہداریوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کو استعمال کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے اور حمایت کرنے والوں میں مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وائٹ ہاوس، واشنگٹن کے زیر اثر فلسطین اتھارٹی کو غزہ پر قابض کر کے فلسطین کی اسلامی مزاحمت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی غاصب صیہونی رژیم کی سربراہی میں ایک مشترکہ سیاسی سیکورٹی بلاک تشکیل دینے پر مبنی ہے جس کا سیاسی پہلو خیانت آمیز "ابراہیم معاہدہ" اور اس کا اقتصادی پہلو "آئیمک راہداری" جانا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بنانے والوں کا اصل مقصد بحر ہند سے لے کر بحیرہ روم تک اسرائیل اور عرب ممالک میں مشترکہ سیکورٹی تجارتی مفادات ایجاد کرنا ہے۔
 
لہذا واشنگٹن غاصب صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیروں کی اس رائے کے مخالف ہے کہ مغربی کنارے کو بھی صیہونی رژیم سے ملحق کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران 7 اکتوبر 2023ء کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں اسلامی دنیا کی نظر میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور اس سے باہر فلسطینی تشخص کی اہمیت کو جانچ چکے ہیں۔ اگرچہ اکونومسٹ کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے پر غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ جارحیت کا مقصد سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پر دباو ڈالنا ہو سکتا ہے تاکہ اسے جلد از جلد اپنے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر تیار کیا جا سکے۔ یعنی سعودی معاشرے میں فلسطین کاز کے بارے موجود حساسیت سعودی ولیعہد کو تمام تنازعات ختم کر دینے پر مجبور کر دے گی جس کا واحد راستہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1188208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش