1
Friday 31 Jan 2025 20:59

شام، ٹرمپ کا تل ابیب کو تحفہ

شام، ٹرمپ کا تل ابیب کو تحفہ
تحریر: سید رضا حسینی
 
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی خاطر اس کام کی ذمہ داری اسی خطے کے قابل اعتماد اتحادیوں کو سونپ دینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر امریکہ کے فوجی اور مالی اخراجات میں کمی لانا ہے۔ یوں امریکہ دنیا بھر میں بالواسطہ تسلط قائم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ نے ماضی میں مشرق وسطی میں ایسی پالیسی ابھی تک نہیں آزمائی۔ 1960ء کے عشرے میں جب ویت نام جنگ کے باعث امریکہ کو بھاری اخراجات کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس وقت کے امریکی صدر نیکسن نے سابق سوویت یونین کے زیر اثر ممالک جیسے عراق، شام اور مصر کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلوی سلطنت کے حامل ایران اور سعودی عرب کو چنا۔ لہذا ایران اور سعودی عرب خطے میں امریکی خارجہ سیاست کے دو ستون جانے جاتے تھے۔
 
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک ستون گر گیا۔ اس کے بعد کارٹر نے خلیج فارس میں ریپڈ ری ایکشن فورس بھیج کر مشرق وسطی میں امریکی خارجہ سیاست کا نیا باب کھول دیا۔ اس وقت امریکی رائے عامل بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی وسیع فوجی موجودگی کے شدید خلاف ہے جس کی بنیادی وجہ 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کی ناکام فوجی چڑھائی اور اس میں خرچ ہونے والے لاحاصل کھربوں ڈالر کے اخراجات ہیں۔ لہذا امریکہ نے مشرق وسطی خطے میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی ذمہ داری اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور سیاسی، فوجی اور اقتصادی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ تل ابیب تزویراتی گہرائی کے فقدان کا شکار ہے اور اب اس امریکی پالیسی کے تحت وہ اپنا وجود شام، لبنان اور مغربی کنارے تک پھیلانا چاہتا ہے۔
 
شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد اسرائیل نے اس عرب ملک پر فوجی چڑھائی کر دی اور اب وہ شام کے وسیع علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار کر چکا ہے۔ مجدل الشمس اور جبل الشیخ کی چوٹیوں پر قبضے سے شام کا دارالحکومت دمشق بھی اسرائیلی توپ خانے کی زد میں آ چکا ہے جو ان دنوں الجولانی کے نام سے معروف احمد الشرع کے زیر تسلط ہے۔ شام میں جیسے ہی بشار اسد کی حکومت ختم ہوئی تو امریکہ نے اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد 900 سے بڑھا کر 2000 کر دی۔ پینٹاگون نے اپنے بیانیے میں دعوی کیا تھا کہ شام میں مزید فوجیوں کی موجودگی کا مقصد داعش کے دوبارہ سرگرم ہو جانے کو روکنا اور صوبہ حسکہ میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد باشندوں اور گروہوں کی مدد کرنا ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔
 
ترکی نے شام میں جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کا مقصد ترک مخالف کرد گروہ پی کے کے کو کچلنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترکی نے کرد علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف شام کی نئی حکومت سے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے میں بھی مصروف ہے۔ 2017ء میں آستانہ مذاکرات کے بعد ھیئت تحریر الشام ترکی کی زیر سرپرستی آ گیا تھا اور اس وقت دمشق کے اعلی سطحی سیاسی اور فوجی رہنماوں کے ساتھ ترکی کے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں۔ یہ علاقہ جو آج شام کہلاتا ہے، 1516ء سے 1918ء تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے اور انقرہ کے ہمیشہ سے خاص طور پر حلب شہر کے ذریعے شام سے مستحکم اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔ شام کی موجودہ حکومت زرمبادلہ ذخائر کی شدید قلت، انفرااسٹرکچر کی تباہی اور تیل کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل کا شکار ہے۔
 
پہلی نظر میں علاقائی کھلاڑیوں پر انحصار کی نئی امریکی پالیسی شاید فوجی اخراجات میں کمی کا باعث بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقائی کھلاڑیوں کے مفادات میں باہمی تضاد اور ٹکراو پایا جاتا ہے جس کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کو سیاسی اور سیکورٹی شعبوں میں شدید دھچکہ پہنچے گا۔ صیہونی اسٹریٹجک ماہر آوے میلامد اس بارے میں لکھتا ہے: "علاقائی اتحاد میں تل ابیب کا کردار بہت اہم ہے اور اسے اسلامی مزاحمتی محاذ اور اخوان المسلمین سے خطرہ ہے۔ اسرائیل سے سازباز کرنے والے عرب ممالک اسرائیل کو ایک مستحکم، قیمتی اور اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیل خلیج فارس، افریقی شاخ، بحیرہ احمر اور بحیرہ روم میں ترکی اور ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح نئے مشرق وسطی کا زمینہ فراہم ہو سکے۔"
خبر کا کوڈ : 1187849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش