اسلام ٹائمز۔ رکن اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، ہمارا سکول سسٹم بہت تشویشناک ہے، جس پر مخصوص دن مختص کر کے اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور اس سیشن میں غور کیا جائے، منگل کے روز مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے بلائے گئے اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت، مشینری اور وسائل موجود ہیں، ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا قوم آگے بڑھ رہی ہے، مستقبل کا سوچنا ہوگا اور اسمبلی میں اس پر مکمل بحث ہونی چاہیے، اسی طرح تعلیم، صحت، لوڈشیڈنگ کیلئے ایک ایک دن مختص کر کے اسمبلی کا سیشن کرانا ہوگا، ہر فیصلے بند کمرے میں کرنے سے تباہی ہوتی ہے، کیونکہ کوئی بھی عقل کل نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انرجی بورڈ کے قیام کے حوالے سے ہم نے شروع میں کہا تھا کہ یہ صوبائی اسمبلی کی قانون سازی سے ہی ہو سکتا ہے لیکن ہماری نہیں سنی گئی، کونسل اور وزیر اعظم کے پاس بھیجا گیا جس کے نتیجے میں معاملہ فٹبال بنا ہوا ہے، دس مرتبہ واپس بھیج دیا گیا ہے اور آخر میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی ہی اس پر قانون سازی کر سکتی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں من مانی کے فیصلے کیے جاتے ہیں، جب تک اسمبلی کی رائے نہیں لی جاتی مسئلہ حل نہیں ہوگا، گلگت بلتستان کے لیگل سسٹم کو دیکھنے کیلئے ڈرافٹنگ تک موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کے سی بی ایل کو چلانے کیلئے کہا گیا کہ تمام سیاستدان نااہل ہیں، تو پھر بیوروکریٹ کیسے اہل ہیں، بورڈ کی ممبر شپ سے دو سیاستدانوں کے نام کاٹے گئے ان کی جگہ بیوروکریسی کو رکھا گیا، نیٹکو کی بھی یہی حالت ہے۔
امجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کا واحد کارڈیک ہسپتال بھی ابھی تک نہیں چل سکا، پورا سسٹم اور قانون کو بھی بیوروکریسی کے ذریعے چلانا ہے تو نتیجہ تباہی ہے، اس تباہی کا نتیجہ لوڈشیڈنگ، تعلیم، صحت کی صورتحال میں دیکھ سکتے ہیں، ہم ریورس گیئر کی طرف آرہے ہیں، جب تک یہاں اجتماعی فیصلے نہیں ہونگے ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی بھی عقل کل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کامرس سیکٹر کو ایک اے ڈی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، یہ اتنا اہم شعبہ ہے کہ جس کی الگ منسٹری ہونی چاہیے تھی، قوم کا سوچنا ہے تو ہم سب کو چھوٹے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔