0
Sunday 2 Feb 2025 11:51

کیا تجارتی جنگ سے امریکی بارڈر محفوظ ہوگا؟

کیا تجارتی جنگ سے امریکی بارڈر محفوظ ہوگا؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر کی پوری الیکشن کمپین میں یہ بات بہت واضح تھی کہ وہ تجارتی جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلمان ممالک تو ویسے ہی لٹے پٹے ہیں اور وہاں کے وسائل کو برباد کر دیا گیا۔ ٹرمپ کی نظریں بڑے بڑے تجارتی اور پروڈکشن کے مراکز پر تھیں، جہاں سے ٹرمپ کو لگ رہا تھا کہ کھربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں یورپ، چین، کینڈا اور میکسیکو پر نظریں جمی تھیں۔ امریکی کمپنیوں نے اربوں ڈالر ٹرمپ کی الیکشن کمپین میں لگائے، یہ سرمایہ دار ایک ڈالر اپنے فائدے کے بغیر خرچ نہیں کرتے۔ ان تمام کا مقصد بھی یہی تھا کہ ٹرمپ برسراقتدار آجائے اور ان ممالک سے آنے والی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کر دے، جس سے ان کمپنیوں کی پروڈکشن بڑھ جائے گی اور انہیں فائدہ پہنچے گا۔ دنیا کے وسائل پر قبضے کا یہ جدید طریقہ ہے۔ دنیا بھر کی معیشت کو تباہ و برباد کر دو، اپنی معیشت کو اس حد تک ترقی دے دو کہ جو اس سے دور ہے، وہ پسماندہ ہی رہ جائے گا۔ جب چاہو ٹیکس کا بٹن دبا کر  ترقی کرتی معیشت اور چلتی فیکٹریوں کو برباد کر دو۔

یہ تماشہ بھی لگایا ہوا کہ دنیا بھر کے ممالک سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ٹیکس ختم کرکے فری تجارت کی طرف جائیں۔ اگر کوئی ملک امریکہ اور مغرب کے تجارتی مفادات کے خلاف جاتا ہے تو اس کے خلاف ڈبلیو ٹی او کا ہتھیار بھی بنا رکھا ہے۔ ڈبلیو ٹی او غریب ممالک کے خلاف کام کرتی ہے، کیونکہ اس کے تجارتی قواعد اور معاہدے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ غریب ممالک کو اپنی مقامی صنعتوں کو تحفظ دینے کی اجازت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں مسابقت نہیں کر پاتے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے کسانوں کو سبسڈیز دے کر سستے مال بیچتے ہیں، جس سے غریب ممالک کے کسانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ علاوہ ازیں، علمی ملکیت کے حقوق کے تحت، غریب ممالک میں ادویات اور ٹیکنالوجی کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں، جس سے ان کی معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔ اس طرح، ڈبلیو ٹی او کے تجارتی اصول اکثر غریب ممالک کے معاشی مفادات کے خلاف جاتے ہیں اور ان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

دنیا بھر میں تنازعات کی بنیاد مفادات کا ٹکراو ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسی مفادات کے ٹکراو کو بیانات سے اقدامات کی طرف لے گئی ہے۔انہوں نے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد اور چین سے درآمدات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف لاگو کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ حکم نامے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس پر ردعمل کا آنا فطری بات ہے، اب ممی ڈیڈی خارجہ پالیسی سے آگے بڑھنے کی بات ہوگی، امریکی بارڈر براہ راست گرم ہونے جا رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ کینیڈا ایسا نہیں چاہتا، لیکن وہ ٹرمپ کے محصولات کے اعلان کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ایکس پر لکھا ہے کہ امریکہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ 4 فروری سے زیادہ تر کینیڈین مصنوعات پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جبکہ توانائی پر 10 فیصد محصولات عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

میں نے آج وزیراعظم اور ہماری کابینہ سے ملاقات کی ہے اور میں جلد ہی میکسیکو کی صدر شین بام سے بات کروں گا۔ ہم یہ نہیں چاہتے تھے، لیکن کینیڈا تیار ہے۔ ویسے آج شام کو  کینڈا کے وزیراعظم قوم سے خطاب بھی کر رہے ہیں۔ درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھے گا، کینڈا کے قوم پرست شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ آپ کے علم میں اضافے کے لیے بتاتا چلوں کہ دنیا کا سب سے بڑا بارڈر امریکہ اور کینڈا کے درمیان ہے، جس کی لمبائی 8,891 کلومیٹر ہے۔ کینڈا بہت بڑا ملک ہے، جس کے چھ  الگ ٹائم زون ہیں۔ اس کے تھوڑا سا بھی متحرک ہونے کا مطلب کھربوں ڈالر کے اضافی اخراجات ہوں گے۔ امریکی صدر کی کینڈا کو امریکی ریاست بنانے کی خواہش کینڈا کے وجود کے لیے بڑے خطرے کے طور پر دیکھی گئی ہے۔

میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو کی تمام درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کے اعلان کے بعد امریکہ پر محصولات سمیت جوابی اقدامات متعارف کرائے جائیں گے۔ ایکس پر لکھا: میں وزیر اقتصادیات کو ہدایت کرتی ہوں کہ وہ پلان بی پر عمل درآمد کریں، جس پر ہم کام کر رہے ہیں، جس میں میکسیکو کے مفادات کے دفاع میں ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات شامل ہیں۔ میکسیکو بھی امریکہ کا پڑوسی ملک ہے اور دونوں کے درمیان 3,145 کلومیٹر لمبا بارڈر ہے۔ یہاں امریکی صدر دیوار تعمیر کرا رہے ہیں، جس سے امریکہ اور میکسیکو کے درمیان غیر قانونی آمد و رفت کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ ٹیرف دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ سے بڑھ کر مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چین خاموشی سے کام کرتا ہے، ٹرمپ نے براہ راست بڑا تجارتی حملہ کیا ہے، اب  دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ مزید واضح ہوتی جائے گی اور اس کے اثرات سامنے آنے لگیں گے۔ ہمارے خطے میں بھی واضح لائنیں بننے لگی ہیں۔ بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ اور ان دہشتگردوں کا چین کو براہ راست دھمکیاں دینا یہ بتاتا ہے کہ تجارتی جنگ وسائل کی ہر جگہ تک پہنچ چکی ہے۔ چین نے ٹیرف کے نفاذ پر نپا تلا سا ردعمل دیا ہے۔ میڈیا کے مطابق چین کا کہنا ہے کہ محصولات کے اقدامات نہ تو چین یا امریکہ اور نہ ہی باقی دنیا کے مفادات کے لیے سازگار ہیں۔ ٹرمپ تاجر ہے اور دنیا کی ہر چیز کو تجارت اور پیسے سے تبدیل کرنا چاہتا ہے، مگر فیصلے صرف تجارت کی بنیاد پر نہیں کیے جا سکتے۔ یہ بات وقت ہی بتائے گا کہ یہ فیصلے امریکہ کے مفاد میں رہے یا بیک فائر کر گئے۔ کینڈا اور میکسیکو میں جلی آگ کی گرمی بھی امریکہ پہنچے گی۔ یہ حالات خراب ہونے کا مطلب عراق، افغانستان اور شام میں حالات خراب کرنے جیسا بالکل نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1188192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش