0
Saturday 12 Oct 2024 22:19

نیتن یاہو کی بین الاقوامی نظام اور اداروں کے خلاف بغاوت

نیتن یاہو کی بین الاقوامی نظام اور اداروں کے خلاف بغاوت
تحریر: احمد کاظم زادہ

فلسطین و لبنان میں غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت کا تسلسل اور خطے میں اس کے دہشت گردانہ خطرات کو بین الاقوامی امن و امان کے خلاف بغاوت سمجھا جاتا ہے، جو بلاشبہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کی کئی دہائیوں کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے امیر سعید ایروانی نے کہا ہے کہ ایران خطے میں جنگ یا کشیدگی میں اضافے کا خواہاں نہیں ہے، لیکن وہ اپنے اہم مفادات اور سلامتی کو نشانہ بنانے والی کسی بھی جارحیت کے خلاف نیز اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانا اور شہری انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سے بھی زیادہ بڑا جرم  ہے بلکہ یہ ایک واضح جنگی  اور انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی ہے۔

صیہونی حکومت نے اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے، بے گناہ شہریوں کو قتل کیا ہے اور لبنان کو ایک گہری انسانی تباہی میں دھکیل دیا ہے۔ اس حکومت نے تمام سرخ لکیریں عبور کرکے دکھایا ہے کہ اسے بین الاقوامی قانون کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "اسماعیل بقائی" نے بھی بین الاقوامی انسانی قانون کے معلوم قوانین کے مطابق اسپتالوں اور طبی و صحت کے مراکز پر حملوں کی ممانعت کی یاد دہانی کرائی اور قابض حکومت کے اس طرح کے مراکز کے خلاف بار بار حملوں کی طرف اشارہ کیا۔ غزہ، لبنان اور شام کے ہسپتالوں اور طبی اور امدادی مراکز پر اس حکومت کی جارحیت کو نہ صرف تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے خلاف تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ عالمی ریڈ کراس کمیٹی سمیت مجاز بین الاقوامی اداروں سے واضح ردعمل کا مطالبہ بھی  کیا گیا، صیہونی حکومت کی مذمت کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کے  ان اقدامات کو جنگی جرم قرار دیا جانا ضروری ہے۔

اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہونے والے جرائم کی تحقیقات کرتا ہے، اس نے رپورٹ شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں امدادی کارکنوں اور صحت کے مراکز پر  مسلسل اور جان بوجھ کر حملے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا کھلم کھلا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی کیمپوں اور حراستی مراکز میں رکھے گئے کئی فلسطینیوں کو بغیر وجہ کے گرفتار کیا گیا ہے۔ حراست میں لیے گئے ہزاروں فلسطینی بچوں اور بڑوں کو بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے ہراساں کیا گیا، ان پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد جیسی کارروائیاں کی گئیں، جنہیں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے نائب ترجمان "فرحان حق" نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ کشیدگی میں اضافے سے جنوبی لبنان کے شہروں اور دیہاتوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، اعلان کیا ہے کہ لبنان میں اقوام متحدہ کے دو امن فوجی اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔ فرحان حق نے بیان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج (IDF) کے سپاہیوں نے لبنان میں اقوام متحدہ (UNP) کی بعض پوزیشنوں پر فائرنگ کی اور اس پناہ گاہ کو بھی نقصان پہنچایا، جہاں امن دستے عام شہریوں کو پناہ دے رہے تھے۔ ان حملوں  میں یو این پی کی گاڑیوں اور مواصلاتی نظام کو بھی نقصان پہنچا۔ اسرائیلی فوج کا ایک ڈرون اقوام متحدہ کی تنصیب کے اندر پرواز کرتا رہا۔ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی افواج لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے قریب تعینات ہیں۔

اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل رزمے ڈی کارلو نے جمعرات کی شام اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کو بتایا کہ ہم اسرائیل سے لبنان پر بمباری بند کرنے اور اپنی زمینی افواج کو واپس بلانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ لبنان کا ایک چوتھائی علاقہ اسرائیلی حکومت کی افواج کے نام نہاد انخلاء کے حکم کے تحت ہے، جس سے ایک سو سے زائد دیہات اور محلے متاثر ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوجی لوگوں کو دو گھنٹے کا وقت دیتے ہیں اور اس طرح کی صورتحال اکثر درمیان رات کو پیش آتی ہے اور لبنانی شہریوں کو راتوں رات اپنے گھر خالی کرنے پڑتے ہیں۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے اہلکار "جوزف بورل" نے بھی کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے ہیڈ کوارٹر پر اسرائیلی فوج کا حملہ سرخ لکیر کو عبور کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے جنوبی لبنان میں UNIFIL فورس کے مرکز کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قرارداد 1701 کی صریح خلاف ورزی ہے۔

صیہونی حکومت اور اقوام متحدہ کے درمیان نازک تعلقات
صیہونی حکومت اور اقوام متحدہ کے درمیان طویل اور کشیدہ تعلقات 7 اکتوبر 2023ء سے غیر معمولی طور پر بگڑ گئے ہیں۔ صیہونی حکومت نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی، جسے UNRWA کے نام سے جانا جاتا ہے، کو اپنے شدید الزامات اور تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے  اعلیٰ عہدے داروں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ شخصیت تک قرار دیا ہے۔ 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے چند ہفتے بعد جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ یہ حملہ کسی خلا میں نہیں ہوا اور فلسطینی عوام 56 سال سے قبضے اور گھٹن کا شکار ہیں۔ صہیونی حکام نے اس بیان کے بعد سرکاری طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

اسرائیل اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے درمیان دہائیوں سے جاری اس لفظی جنگ کی شدت میں حال ہی میں اس حد تک اضافہ ہوا ہے کہ نیتن یاہو نے حزب اللہ کی قیادت کے ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردانہ حملے اور سید حسن نصراللہ کے قتل کا حکم اقوام متحدہ میں بیٹھ کر دیا۔ جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کے چارٹر کو پھاڑنے، غزہ میں اقوام متحدہ کے عملے کو قتل کرنے، عالمی عدالت انصاف کا مذاق اڑانے، جنگ بندی کے عالمی مطالبات کو نظر انداز کرنے، سلامتی کونسل کو غیر موثر بنانے، اقوام متحدہ کی فوج پر حملہ کرنے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ عنصر قرار دینے کے بعد اس صیہونی ریاست کے اقوام متحدہ میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں رہا اور بلاشبہ اس شیطان صفت رکن کی بے دخلی سے اس تنظیم کی بقا کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 1166136
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش