0
Saturday 12 Oct 2024 18:36

یہودی، عبادات اور حرکات کے آئینے میں

یہودی، عبادات اور حرکات کے آئینے میں
تحریر: شریف ولی کھرمنگی

"یوم کپور" کو یہودی پچیس گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ 25 گھنٹے کے روزے میں یہ کھانے پینے، نہانے، جوتے پہننے، تیل لگانے اور جنسی تعلقات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنے سال بھر کے گناہوں کو زندہ مرغی میں منتقل کرتے اور پھر اس گناہ گار مرغی کو ذبح کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہودی اس مقصد کیلئے استعمال کرنے والی مرغیوں کو چھے سات دن تک بغیر کچھ کھلائے پلائے ڈبوں میں بند کرکے رکھ لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مرغیوں کی زیادہ تر تعداد رسم کی ادائیگی سے پہلے ہی مرچکی ہوتی ہے۔ کپور کے دن اپنے گناہ مرغی میں منتقل کرنے کیلئے توریت کی مخصوص دعائیں پڑھتے ہوئے تین مرتبہ سر کے اوپر پھیر لیتے ہیں۔ مرد کا کفارہ مرغے (میل) کے ذریعے اور عورت کا کفارہ مرغی (فیمیل) کو یہودی طریقے سے حلال کرکے اتارنا ہوتا ہے۔ تاہم اسوقت بہت سے یہودی ربی مرغی مارنے کے عمل کو غلط سمجھتے اور اس کی بجائے کفارے کے طور پر کچھ رقم صدقہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

دراصل یہودی قمری کیلنڈر کے ساتویں ماہ "تشری Tishri"، جسے دنیا کی تخلیق کے آغاز کی مناسبت سے یہودی نیو ائیر "روش ہشانہ rosh hashanah" کے نام سے پکارا، سمجھا اور منایا جاتا ہے۔ 200 سال قبل مسیح سے جاری اس روایت کے مطابق یہودی نئے سال "روش ہشانہ" کا آغاز 2، 3 اکتوبر 2024ء کو ہوا جو کہ یہودی کیلنڈر کے حساب سے 5785 واں سال ہے۔ اس مناسبت سے دنیا بھر کے یہودی نئے سال کی خوشیاں مناتے، سفید کپڑے اور کپڑے کے اوپر عبادات کیلئے مخصوص عبایا یا شال پہن لیتے ہیں۔ تازہ میوے اور میٹھے کھانوں کا اہتمام کرتے اور ایک دوسرے کو "روش ہشانہ" کی مبارکباد "شانا تو وا" پکارتے بالکل اسی طرح دیتے ہیں جیسے مسلمان عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی۔ اسی مناسبت سے "یوم کپور"، اس سال 11 اکتوبر 2024ء کو غروب آفتاب تا 12 کی شام تک، نئے سال کی اس پہلی دہائی کا حصہ ہے، جسے یہ لوگ مذہبی عقیدے میں عشرہ مغفرت کے نام سے بھی مناتے ہیں۔

یہودیوں کے مطابق "یوم کپور" کو اہم ترین دن اس لئے سمجھا جاتا ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سامری کے بنائے گوسالہ کی پرستش کے گناہ عظیم سے یہودیوں کو خدا نے اجتماعی معافی دے دی تھی۔ لہذا یہودی اجتماعی توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ اپنے سال بھر کے گناہوں سے بخشش اور نئے سال کیلئے عافیت کی دعا کا یہ آخری اور اہم ترین موقع ہوتا ہے۔ اس دن یہ لوگ ایک طرح سے مکمل عبادات میں گزارتے ہیں۔ دن اور رات کو مختلف اجتماعی و انفرادی دعائیں اور مغفرت مانگتے۔ عبادت گاہوں میں گریہ کرتے، مذہبی پیشوا روایتی مینڈھے کے سینگ سے بنے بگل "شوفر" بجاتے۔ مینڈھے کے سینگ کو اس دن بجانے کا عنوان اس لئے اہم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہودی سمجھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے حکم سے جب حضرت اسحاق علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کرنا چاہا تو اسوقت حکم خدا سے حضرت اسحاق علیہ السلام کی جگہ مینڈھا قربان ہوا۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق نہیں بلکہ حضرت اسماعیل کی قربانی کا اہتمام کیا اور ان کی جگہ مینڈھا ذبح کیا گیا۔

بہر کیف یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اس عشرہ مغفرت میں مینڈھے کے سینگ کی آواز سن کر شیطان یہودیوں سے بہت دور بھاگ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دن یہ لوگ توریت اور زبور کی مخصوص آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ خصوصاً نبی خدا حضرت یونس علیہ السلام "ذوالنون" کی وہ دعا پڑھتے ہیں، جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں پڑھی اور نتیجتاً خدا کے حکم سے مچھلی نے انہیں واپس زمین پر اگل دیا۔ قرآن مجید میں بھی حضرت یونس علیہ السلام کی دعا موجود ہے، جسے ہم عام طور پر نماز غفیلہ میں پڑھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دن یہودی اپنے دوست احباب سے بھی غلطیوں پر معافی مانگ لیتے ہیں۔ جو لوگ فوت ہوچکے ہوتے ہیں، ان کی مغفرت کیلئے بھی اس روز کادش کرتے (مخصوص توریت اور زبور سے دعائیں مانگتے) ہیں۔ آنے والے سال میں اپنے گناہ سے بچنے، طول عمر، خوشحالی، خدا کی فرمانبرداری اور پرہیزگاری کا ارادہ و اعادہ کرتے ہیں۔

ان مذہبی رسوم سے یہودیوں کی عبادت گزاری اور کٹر عقیدے کا جس قدر اظہار ہوتا ہے، وہ اپنی جگہ سوچنے کا مقام ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال سے یہی عبادات بجالانے والے یہودیوں کی غاصب ریاست مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کو مرغیوں سے بھی زیادہ بے قیمت سمجھ کر قتل کر رہی ہے۔ یہ بچوں کو بخشتے ہیں نا خواتین کو، بیماروں کو چھوڑتے ہیں نہ بزرگوں کو۔ لاکھوں لوگ ان کی بربریت کا نشانہ بنے اور بن رہے ہیں۔ اسی مغفرت کے عشرے "روش ہشانہ" کے ایام میں بھی یہ ریاستی دہشت گردی سے باز نہیں رہے۔ نہ ان کو سیاسی، معاشی، سفارتی اور اسلحے کے ذریعے امداد دینے والوں کو اپنی مذہبی اور انسانی تہذیب کا لحاظ رہا۔ دنیا حیران ہے کہ اس مذہب کی رسوم اور عبادات کو دیکھے یا ان کی انسانیت دشمن حرکتوں کو، بربریت اور نسل کشی کو۔ یہ بھی نہیں کہ سارے یہودی ان مظالم کو اچھا تصور کرتے ہوں، بہت سی یہودی تنظیمیں اور شخصیات ان کی اتنی شدت سے مخالفت کرتے ہیں، جتنا بعض مسلم اسکالر اور رہنماء بھی نہیں کرتے۔

مغربی ممالک میں عوامی سطح پر جو مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ پاکستان سمیت مسلم ممالک کیلئے قابل تقلید ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر سیاسی اور حکومتی سطح پر دیکھا جائے تو مغربی ممالک کی کل اکثریت ان تمام بربریت کے باوجود صیہونی نسل پرست غاصب ریاست کی بربریت پر ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ انسان کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ کاش "یوم کپور" پر قربانی کرنے، اپنے گناہوں پر گریہ کرنے، عبادت گاہوں میں رونے پیٹنے والے یہودیوں کو اپنی انسانیت دشمن حرکتوں پر بھی رونا آجائے۔ کم سن بچوں کو قتل کرنے والوں کو توریت کی تلاوت کرتے ہوئے کچھ حیا آجائے۔ حضرت یونس کی دعا پڑھ کر خدا سے بخشش مانگنے والوں کو ایک ہی بار موت ہی آجائے۔

اس واضح دوہرے معیار، ایک طرف عبادات اور مذہبی رسوم اور دوسری طرف نسل کشی اور ظلم، سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ رسمی عبادات ہی دین کی سچائی اور دینی ہونے کا نام نہیں۔ محض عبادات سے انسانیت ثابت نہیں ہوتی۔ نہ ہی عبادت گزاری اور مذہبی رسوم کی بجا آوری حق و باطل کو طے کرنے کا معیار قرار پاتی ہے۔ ایسا ہوتا تو شاید یہودیوں کی عبادات کا بڑا مقام ہوتا۔ لیکن جب عبادات کے ساتھ معاملات اور انفرادی و اجتماعی حرکتیں بہتر نہیں تو اسوقت دنیا میں مذہبی اور غیر مذہبی تمام اقوام میں انہی یہودی عبادت گزاروں کے غاصب ریاست کو نسل کشی، بربریت، لاقانونیت اور عالمی امن کیلئے سب سے زیادہ خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ان کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک طرح سے ہم مسلمانوں کیلئے بھی سبق ہے، جن میں سے بہت سے طبقے اپنی عبادات کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ اگر ہمارے معاملات اور حرکتیں بہتر نہیں ہوتیں تو محض عبادات اور رسمی دینداری کیساتھ معلوم نہیں ہمارا شمار کن لوگوں میں قرار پائے۔
خبر کا کوڈ : 1166048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش