تحریر: ارشاد حسین ناصر
رہبر معظم کی آنکھوں کی ٹھنڈک، سید مقاومت سید حسن نصراللہ کا سانحہ اگرچہ کسی بھی وقت ہوسکتا تھا، وہ 1992ء میں شہید عباس موسوی کی ایک میزائل حملے میں بیوی اور بیٹے سمیت شہادت کے بعد سے مسلسل ٹارگٹ پر تھے۔ سید عباس موسوی کو اس وقت شہید کیا گیا تھا، جب وہ شہید راغب حرب جو ان سے قبل سیکرٹری جنرل تھے، ان کی شہادت کے دن برسی کے اجتماع سے خطاب کرکے جا رہے تھے۔ اس طرح کے سفاک اور بدترین دشمن، اپنوں کی سازشوں اور لبنان کے مخصوص حالات سے باخبر لوگ یہ جانتے ہیں کہ سید مقاومت کا اتنا عرصہ تک اسرائیل کی ان گنت سازشوں، کوششوں کے باوجود پروردگار نے انہیں جتنا وقت اس جہاد و شہادت کے راستے میں، نوجوانوں کی تربیت و ملی و فکری کے ذریعے اپنی شخصیت کے اثرات چھوڑنے کیلئے دیا، وہ تقریباً بتیس برس بنتے ہیں، وہ اتنی ہی عمر میں سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ کے اس مسئولیت کے عرصہ میں حزب اللہ نے بہت اہم کامیابیاں سمیٹی ہیں، جن میں قیدیوں کی رہائی، لبنان کی مقبوضہ سرزمین کی واپسی، 2006ء کی جنگ کی فتح اور لبنان کی سیاست میں بہت اہم کردار، جبکہ لبنان کی دفاعی فورس کے طور حزب اللہ کا وسیع کردار۔ اسی طرح شام و عراق میں تکفیریوں کے مقابل مجاہدین کی تیاری سے لیکر حرمین عراق و شام کے دفاع نیز شام و عراق سے داعش کے خاتمہ اور شکست امریکہ اسرائیل، سعودی عرب سمیت سب کی بڑی انویسٹمنٹ اور مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کی سازش جیسے چیلینجز میں اپنی حکمت عملی، عظیم قربانیوں اور شہادتوں سے اپنی شخصیت کو نہ صرف منوایا بلکہ خطے کے عام و خواص، جن میں ہر مذہب و مکتب اور ادیان کے لوگ شامل ہیں، ان میں محبوبیت کی حد تک رسوخ پانا انہی کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ ان کی شخصیت کی محبوبیت اس حد تک ہے کہ عام ماڈرن لڑکیاں، جن کی شرٹس اور لباس مغربی کلچر کی دلدادگی ظاہر کرتے ہیں، وہ سید کی تصاویر کے ساتھ ان کی تقاریر کے حصے ویڈیوز کی شکل میں فخریہ انداز میں شیئر کرتی ہیں۔ اس سب کے ساتھ ان کی شخصیت کی محبوبیت کا یہ ایک عجیب سلسلہ دیکھنے کو ملا کہ فلسطینی، الجزائری، لبنانی، اردنی، لیبیائی، عراقی، شامی اور دیگر بہت سے علاقوں کے جوان کلمہ پڑھتے کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں، مگر سید مقاومت کی وجہ سے، حزب اللہ کے کردار کی وجہ سے ہم کلمہ توحید، کلمہ رسالت اور کلمہ ولایت پڑھتے ہوئے گواہی دیتے ہیں کہ علی ؑحق ہے، یہ محبوبیت نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات کا مرکز و محور رہا ہو، جس معاشرہ میں علاقائی تعصبات اور گروہی برتری کیلئے قتل و غارت معمولی بات ہو، اس معاشرہ میں سید مقاومت کی محبوبیت اس قدر ہو تو اسرائیل و امریکہ اور اس کے فرقہ پرست اتحادیوں کو شکست تسلیم کرنا ہی بنتا ہے۔
سید مقاومت کی یہی محبوبیت اور سچا وعدہ کرنے والے، وعدہ کرکے اسے ہر قربانی دے کر نبھانے والی شخصیت کے طور پہ تسلیم کیا جانا، اسرائیل و امریکہ کی آنکھوں کو کبھی نہیں بھایا، اس لیے کہ انہوں نے امت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے جو گروہ داعش، النصرہ، الاحرار اور نہ جانے کتنے ہی نام ہیں، کی شکل میں بنائے تھے اور انہیں جدید ترین اسلحہ، سفاکیت کی تربیت اور ظلم و بربریت سے نام نہاد اسلام کے نفاذ کا جھنڈا تھمایا تھا، وہ سب کے سب ناکامی سے دوچار نظر آتے تھے۔ لہذا اس وجہ سے بھی سید مقاومت کے وجود کو ہر صورت میں مفقود کرنا لازم سمجھا گیا۔ سید کے مفقود ہونے کے بعد سے لے کر مسلسل حزب اللہ کی قیادت، قدس فورس کی قیادت، مقاومتی رہنماوں کے بارے منفی خبریں اور غلیظ پراپیگنڈہ کرنے والوں کو متحرک کیا گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر عالم عرب و عجم کی طرف سے اتحاد و وحدت اور یکجہتی کے پیغامات از خود لوگ نشر کر رہے تھے، ایسے میں کبھی شام میں داعشیوں کے خلاف مدافعین حرم کی کارروائیوں کی ویڈیوز کو سامنے لا کر انہیں فرقہ وارانہ مقاصد کیلئے نشر کرنا اسرائیل و امریکہ کا ایجنڈا اور انہی کی خدمت کرنا ہے، مگر ہمیشہ کی طرح امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہونے والوں نے اس بار بھی اپنے لئے یہی کردار پسند کیا اور غلیظ امریکی اور اسرائیلی پراپیگنڈا مہم کا حصہ بنے نظر آئے۔ یہی لوگ کبھی افغانستان، کبھی عراق، کبھی لیبیا، کبھی تیونس، کبھی مصر، کبھی فلسطین، کبھی شام، کبھی عراق، کبھی ایران میں امریکیوں کے ہاتھوں کھلونا بنے نظر آئے ہیں۔ انہی دنوں میں جب ایران کی امریکہ و اسرائیل کیساتھ شدید ترین جنگی کیفیت پیدا ہوچکی ہے تو یہ لوگ ایران کو داخلی محاذ میں الجھا کر امریکی و اسرائیلی نمک حلالی کرنے کی ناکام سعی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
حالانکہ ان بے شرموں کی حالت یہ ہے کہ ساری عمر الجہاد الجہاد کے خالی نعرے لگاتے نہیں تھکے، مگر ایک سال ہوا، فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصیٰ شروع کر رکھا ہے، ان نام نہاد جہادیوں (جو دراصل خوارجی ہیں) کی طرف سے اسرائیل جو اکتالیس ہزار بے گناہ معصوم فلسطینیوں جن کی اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، ان کو شہید کرچکا ہے اور یہ اسی اسرائیل کی کی گود میں بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک سال ہوا طوفان الاقصیٰ کو، مگر انہوں نے ایک گولی نہیں چلائی کسی اسرائیلی پر۔ اس لیے کہ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ امریکہ و موساد کا فراہم کردہ ہے، جس کو شام، عراق یا پھر ایران میں چلانے کی اجازت ہے۔ یہ لوگ ادلب شام میں اپنا ایک نام نہاد متوازی نظام حکومت قائم کیے ہوئے ہیں اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں، مگر مجال ہے کہ ان کی طرف سے حماس کے مجاہدین کی کسی بھی قسم کی مدد کی گئی ہو، بلکہ یہ لوگ تو برملا حماس کو شیعہ ایران کی ایجنٹ تنظیم گردانتے ہیں۔
پاکستان میں بھی یہ لوگ سوشل میڈیا پہ کاغذی شیر بنے، تسلسل سے جمہوری اسلامی ایران، مقاومت عراق، مقاومت یمن، مقاومت لبنان، سید مقاومت کے خلاف جھوٹا و من گھڑت پراپیگنڈا کرتے رہتے ہیں، جبکہ ان سب کے مقابل دنیا بالخصوص اہل فلسطین، مظلوم اہل غزہ اور جہاد فلسطین میں وارد گروہوں کو بخوبی نظر آتا ہے کہ کون ان کی پشت پر ہے۔ دنیا بھر کا صیہونی ہمدرد و لابی میڈیا اگر کسی کے خلاف پراپیگنڈا کر رہا ہے تو ایران ہے، یمن کی مقاومت ہے، شامی مقاومت ہے، لبنانی مزاحمت ہے یا عراق کی مقاومت ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ میدان میں ہیں، جو اسرائیل کے صنعتی شہروں حیفا میں، تل ابیب میں بم، ڈرونز، میزائل بھیج رہے ہیں، انہی کو جوابی حملہ کا شکار کیا جائے گا۔ اگر ایرانی، لبنانی، شامی، عراقی یا یمنی مجاہدین کی قیادتیں نشانہ بنتی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کو ان سے تکلیف اور درد پہنچ رہا ہے، یہ تکلیف اور درد تو ہر وقت پڑتا رہیگا۔
البتہ اس سب پراپیگنڈا کا نچوڑ یہی ہے کہ مقاومت لبنان، فلسطین، عراق، یمن، شام ایک ہیں، ان کی طاقت ایک ہونے میں ہی ہے، یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہیں اور ایران میں پارلیمنٹ میں پاس کردہ قرارداد بارے پڑھ کر مزید خوشی ہوئی ہے کہ باقاعدہ طور پر اتحاد بنایا جائے گا، جس کا ایک مشترک آپریشن روم بھی ہوگا اور سب کی مدد کی جائے گی۔ اگرچہ فلسطین میں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ وغیرہ باہمی اشتراک رکھتے ہیں، اس اشتراک میں یمن، لبنان، عراق، شامی مقاومت بھی شامل ہوگی تو اسرائیل کے جلد خاتمہ کا ساماں ہوسکے گا۔ اسرائیل کو سید مقاومت نے مکڑی کے جالے سے بھی کمزور تر کہا تھا۔ رہبر معظم نے اس کے جلد خاتمہ اور بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی نوید سنا رکھی ہے، یہ شخصیات یقینی طور پر الہیٰ شخصیات ہیں، ان کا کہا سچا وعدہ ہے، جو کہ ثابت شدہ ہے، اس لیے ہم اس جنگ کو، ان شہادتوں کو، ان لمحات کو بہت قیمتی جانتے ہیں اور اس منظر کو جلد دیکھنے کے آرزومند ہیں، جب عشاقان شہادت، فرزندان قدس، اسرائیل کے ناجائز وجود سے نجات دلا کر نماز شکرانہ ادا کرتے دیکھے جائینگے۔