تحریر: علی احمدی
طوفان الاقصی آپریشن کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے جو فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس کے ملٹری ونگ القسام بٹالینز نے 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام دیا تھا۔ یہ آپریشن غاصب صہیونی رژیم کی جعلی تاریخ میں اس پر سب سے بڑا حملہ جانا جاتا ہے جس نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کو شدید صدمہ پہنچایا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کی غزہ کور مکمل طور پر تباہ کر دی جو اس وقت غزہ کی سرحد کے قریب تعینات تھی۔ اسی طرح اسرائیلی فوج کے ناقابل شکست ہونے کا افسانہ بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہوئی ہے جو شہید سید حسن نصراللہ کے اس معروف جملے کا واضح مصداق ہے کہ "اسرائیل اوھن من بیت العنکبوب" یعنی اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزور ہے۔
اس وقت غاصب صہیونی رژیم اور اسلامی مزاحمت کے درمیان طویل ترین جنگ کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی معیشت اور سکیورٹی پوری طرح مفلوج ہو چکی ہے اور خاص طور پر صہیونی فوج کو شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ غزہ جنگ کے بعد اسرائیل سے فرار ہو کر دیگر ممالک جانے والے آبادکاروں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم غزہ میں بے شمار جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم انجام دینے کے باوجود، جن میں اب تک 50 ہزار کے قریب بے گناہ فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہری زخمی اور معذور ہو گئے ہیں، اب تک حتی ایک جنگی ہدف بھی حاصل نہیں کر پائی ہے۔ یاد رہے صہیونی رژیم نے اعلان کیا تھا کہ غزہ جنگ کا مقصد حماس کی مکمل نابودی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی ہے۔ اب تک نہ ہی حماس ختم ہوئی ہے اور نہ ہی اسرائیل اپنے یرغمالیوں کو آزاد کروا سکا ہے۔
حزب اللہ لبنان نے 8 اکتوبر 2023ء سے ہی غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کیلئے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا اور اس دن سے اب تک روزانہ کی بنیاد پر کئی مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی تھیں۔ حزب اللہ لبنان کی کاروائیوں کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں کئی یہودی بستیاں خالی ہو گئی تھیں اور ہزاروں آبادکار نقل مکانی کر کے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کی جنگ کے دوران اسلامی مزاحمت نے اسرائیل پر نئی مساواتیں مسلط کر دی ہیں۔ اس دوران اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان مظلوم فلسطینیوں کے سب سے بڑے حامی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اب تک اسرائیل کے خلاف جنگ میں سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ سمیت بڑی تعداد میں اس تنظیم کے اعلی سطحی کمانڈر اور رہنما شہید ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود حزب اللہ لبنان فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں ڈٹی ہوئی ہے۔
طوفان الاقصی آپریشن، عصر حاضر میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے دوران فلسطین کی اسلامی مزاحمت کا تاریخی موڑ جانا جاتا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے نتائج میں سے ایک تمام اسلامی مزاحمتی طاقتوں کے درمیان اتحاد پیدا ہونا اور "محاذوں میں وحدت" ہے۔ مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار ایران سے لے کر حزب اللہ لبنان تک اور انصاراللہ یمن سے لے کر حزب اللہ عراق تک تمام اسلامی مزاحمتی گروہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی پشت پناہی اور حمایت کر رہے ہیں اور یوں تاریخ میں پہلی بار ایک گرینڈ اسلامی مزاحمتی اتحاد معرض وجود میں آ چکا ہے۔ یہ اسرائیل کیلئے بہت بڑی خطرہ ہے جس نے اس کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل ایک ہی وقت میں چند محاذوں پر لڑنے پر مجبور ہے جس کے باعث اس کی طاقت تیزی سے زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے اور اس کی عنقریب حتمی نابودی کی امید بڑھ گئی ہے۔
طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت سے برخودار غاصب صہیونی رژیم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یوں خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں تبدیل کر سکتی ہے۔ یہی بات فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہونے کا باعث بنی ہے اور وہ اپنی سرزمین کی آزادی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کر رہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے باعث مسئلہ فلسطین ایک بار پھر عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بن گیا اور امت مسلمہ ایک بار پھر قبلہ اول کی آزادی کیلئے پرعزم دکھائی دینے لگی ہے۔ سعودی عرب سمیت چند عرب ممالک طوفان الاقصی آپریشن کے بعد رائے عامہ کے دباو میں آ کر اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کا منصوبہ آگے بڑھانے کی جرات کھو چکے ہیں۔ آج پوری امت مسلمہ اسرائیل سے سازباز کرنے والے حکمرانوں پر لعنت ڈال رہی ہے اور سب کو غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد کی دعوت دے رہی ہے۔
آج اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنی بقا کیلئے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم لبنان کے خلاف حالیہ جنگ میں 2006ء کی 33 روزہ جنگ سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یوں نہ تو صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا وہ "جدید نظم" مشرق وسطی پر حکمفرما ہوتا نظر آتا ہے جس کا ذکر اس نے شہید سید حسن نصراللہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد کیا ہے اور نہ ہی وہ "جدید مشرق وسطی" تشکیل پاتا دکھائی دیتا ہے جس کا اعلان امریکی وزیر خارجہ کینڈولیزا رائس نے 2006ء میں کیا تھا۔ آج اسرائیل بھی وہ اسرائیل نہیں رہا جو بن گورین کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی کے بقول یہ اسلامی مزاحمتی قوتیں ہیں جو حزب اللہ لبنان کی مرکزیت میں خطے کی تقدیر کا فیصلہ کریں گی۔ انشاءاللہ