0
Friday 19 Jul 2024 14:47

آزادی میں دیر کیوں؟؟؟

آزادی میں دیر کیوں؟؟؟
تحریر: سید تنویر حیدر

"یوم عاشورا" گزر گیا۔ کہیں نالہ و فریاد اور آہ و بکا کے ساتھ اور کہیں افسوسناک خاموشی کے ساتھ۔ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے عاشورا کی معنویت کو سمجھا اور اس کی حرارت سے اپنے دلوں کو گرمایا اور اپنی زندگیوں پر طاری جمود کی کیفیت کو ختم کرکے اپنی رگوں میں خون زندگی دوڑایا؟ کتنے ہی گم گشتہ مسافروں نے "ہدایت کے چراغ" سے روشنی کشید کی اور اپنے آپ کو راہ حسینی کا مسافر بنایا۔؟ طوفانوں کی لہروں کے تھپیڑے کھانے والے کتنے ایسے مصیبت زدہ تھے، جنہوں نے "سفینہء نجات" تک پہنچنے کا سامان کیا۔ جہاد پہ کمر بستہ کتنے ایسے اہل رزم تھے، جنہوں نے میدان مقاومت میں "لبیک یاحسین" کا نعرہ بلند کیا۔

آج اہل فلسطین اور اہل کشمیر کی طرح کئی اور ایسی قومیں ہیں، جو تقریباً ایک صدی سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کی جارح افواج، اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ آور ہونے کے باوجود لبنان کی "حزب اللہ" یا یمن کی "انصاراللہ" کے ہاتھوں سے ان کی بالشت برابر زمین بھی ہتھیا نہیں سکیں۔ دنیائے اسباب و علل میں اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ ان کے ہاتھوں میں "پرچم حسین" ہے۔ اب جو اہل فلسطین نے مقاومت کا راستہ اختیار کیا ہے، اس کی وجہ بھی ان کے اندر بیدار ہونے والا جذبہء حسینیت ہے، جو تیزی کے ساتھ اپنی ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔ یہ بات بھی ایک طے شدہ زمینی حقیقت ہے کہ حسینیت قربانی مانگتی ہے۔ حسینیت خون پر شمشیر اور تخریب پر تعمیر کی فتح کا نام ہے۔ حسینیت ایک انقلابی طرز فکر ہے۔

حسینیت پر جب بھی کبھی جمود طاری ہوتا ہے، خدا اس کے مقابلے میں ایسوں کو لے آتا ہے، جو اس کے وجود میں خون زندگی دوڑانے کا سبب بنتے ہیں۔ حسینیت کے دشمن اس کی دشمنی میں اس قدر اندھے ہوتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ ہی نہیں پاتے کہ وہ جس ہتھیار سے اس کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، وہی اس کے وجود کی بقا اور اس کی طاقت کے احیاء کا ضامن ہے۔ گردش زمانہ کی طنابوں پر نظر رکھنے والے، امام الحق اور امیر کائنات علی ابن ابی طالب (ع) کا یہ فرمایا ہوا لمحہء موجود میں لوح عالم پر جلی حروف میں لکھی ہوئی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ "دنیا اپنی منہ زوری دکھا لینے کے بعد آخر ہماری جانب اس طرح لپکے گی، جس طرح ایک سرکش اونٹنی بڑی بیتابی سے اپنے بچے کی طرف لپکتی ہے۔"

کاش جس طرح اس یوم عاشورا پر لبنان اور یمن کی سڑکیں انسانوں کے کسی بحر بیکراں کا منظر پیش کر رہی تھیں اور ان پر حسینی پرچم تلاطم خیز لہروں کی طرح لہرا رہے تھے، مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی گلیاں بھی اپنے اندر حسینی پرچموں کا سیل رواں لیے ہوتیں اور ان کا ہر فرد  "لبیک یاحسین" کا طاغوت شکن نعرہ بلند کر رہا ہوتا تو ان پر قابض افواج "مکڑی کے جالے"  کی طرح ہوا میں بکھر گئی ہوتیں۔ یہ کام ہونا تو ہے ہی لیکن اس میں دیر کیوں کی جائے جب کہ کشتئ نجات سامنے ہے!!! "الحسین مصباح الھدی و سفینہ النجات" فرمان رسول خدا(ص)
خبر کا کوڈ : 1148567
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش