1
0
Wednesday 17 Jul 2024 16:54

آئمہ علیہم السلام اور شعراء

آئمہ علیہم السلام اور شعراء
ترتیب و تنظیم: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ایک اور اہم مسئلہ شعراء کا ہے۔ جتنا حساس کردار علماء اور فقہاء کا ہے۔ ایک الگ میدان میں اور ایک الگ سطح پر یہی کردار ایک الگ شکل میں شعراء ادا کرتے ہیں۔ شعراء کا ہمیشہ ہر اجتماع میں ایک کردار رہا ہے۔ کوئی بھی اجتماع ہو، جب وہ کسی خاص سمت اور ہدف کی جانب جاتا ہے تو اس میں شاعر کا کردار بنیادی قسم کا ہوتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دو سال قبل میں نے شاعر کے کردار کے بارے میں یہاں ایک مختصر گفتگو کی تھی۔ ہر زمانے میں شعراء کے دوش پر اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ متوجہ نہیں ہیں کہ یہ مہمل گوئی اور ہرزہ سرائی اور آج دنیا میں حکمفرما اور ہر دور میں حکمفرما رہنے والی ظالمانہ پالیسیوں کی بالواسطہ پیروی کتنا بڑا جرم ہے۔ یہ شعراء جو ثقافت کو اور سماج کی فکری سطح کو گرا کر جنسیاتی مسائل تک پہنچاتے ہیں، عریانیت پر مبنی شعر کہتے ہیں، بے ادبانہ اور بے حجاب ادبیات پیش کرتے ہیں، انھیں نہیں خبر کہ کیسا جرم کر رہے ہیں۔ اس سطح پر جو سب سے بڑا جرم ہوسکتا ہے، وہ یہی ہے۔

شعراء اور خاص طور پر نوجوان شعراء یہ بات سمجھ لیں کہ ان کا شعر بہت تیز کاٹنے والا ہتھیار ہے۔ جدید شاعری کی زبان کلاسیکل شاعری سے زیادہ گویا اور اثردار ہے۔ خود مجھے بھی جدید شاعری اور اس کی گویا و اثردار زبان سے دلچسپی ہے۔ البتہ جو درستگی اور ضوابط کے دائرے میں ہو، لغویات نہیں۔ اگر آج یا کسی بھی دور میں کوئی شاعر اپنے اس تیز ہتھیار کو لیکر ان مسائل پر ٹوٹ پڑے، جو اس ملت کی اولیں ضرورت نہیں ہے، تو یہ اس نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ یہ چیز ہمیشہ رہی ہے۔ البتہ شعر کی دنیا میں جو انحرافات ہوتے ہیں، وہ کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ شعری انحراف یہ تھا کہ شاعر انعام پانے کے لئے، پیسے کے لئے شعر کہتا تھا۔ غریب پیسے نہیں دیتا تھا، ورنہ اگر غریب بھی پیسہ دیتا تو وہ اس کے لئے بھی شعر کہتا۔ اگر گلی میں ٹہلنے والا فقیر بھی اشرفیوں کی تھیلی شاعر کو دیتا تو وہ کسی دولتمند کے لئے قیصدہ کہنے کے بجائے اس فقیر کے لئے کہہ دیتا۔ اگر شاعر کو معلوم ہوتا کہ وہی سونا، وہی مرصع تسمہ اور وہی جواہرات اسے گلی کے بقال سے مل جائیں گے تو وہ اس کے لئے بھی شعر کہتا:
شنیدم که از نقره زد دیگدان‏
ز زر ساخت آلات خوان عنصرى


زمانہ ماضی کا شاعر چاندی سے بھرا ہوا برتن اور دسترخوان کی چیزیں سونے کی بنی ہوئی دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ چیز اسے جو بھی دیتا، وہ اس کے لئے شعر کہنے پر آمادہ رہتا تھا۔ مگر اس زمانے میں محمود غزنوی کے علاوہ کوئی نہیں تھا، جو یہ چیزیں اسے دے پاتا۔ محمود غزنوی بے دریغ دیتا تھا تو شاعر اس کے لئے شعر کہتا تھا۔ یہ بھی ایک طرح کا انحراف تھا، البتہ بعد کے ادوار میں یہ چیز کم ہوتی گئی۔انحراف کا ایک اور بھی انداز ہے، جو ہم آجکل دیکھتے ہیں۔ یہ انحرافی بحث کا معاملہ ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ آئمہ علیہم السلام کے زمانے میں شعراء زیادہ تھے۔ عربوں کی شاعری عجم کے مقابلے میں کافی کھلی ہوئی تھی۔ جس زمانے میں فارسی شاعری، میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آجکل بڑا زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ عربی و اسلامی ثقافت کو ہماری نظر میں گرایا جائے، تو میں اس پروپیگنڈے کو بے اثر کرنا چاہتا ہوں، ابتدائی دور میں یعنی؛ "آهوى کوهی در دشت چگونه ..." کے دور میں تھی۔

نہ شعر تھا، نہ نثر، بلکہ بالکل بے معنی چیز تھی، جبکہ اسی دور میں عربی کے وہ معرکۃ الآرا قصائد یعنی معلقات السبع کہے گئے، جو عربی ادبیات کی تاریخ کی پیشانی پر درخشاں ستارے ہیں۔ اسی دور میں ان قصائد کو کعبے پر آویزاں کیا جاتا تھا۔ شعری تاریخ کے اعتبار سے عرب ہم سے کافی پرانے ہیں۔ عربی زبان، عربی ثقافت، میری مراد عربی ثقافت کا یہی ادبی پہلو ہے، عربی ادبی ثقافت بڑا درخشاں ماضی رکھتی ہے۔ تو شعراء بہت تھے اور ہر طرح کی شاعری کرتے تھے۔ اکثر لوگ شعر کہتے تھے، عورتیں، لڑکیاں، مرد سبھی۔ شعر کے اس ہتھیار کو دو لوگ استعمال کرسکتے تھے۔  ایک عبدالملک اور ایک امام سجاد علیہ السلام۔ ہشام یا امام جعفر صادق علیہ السلام۔ ہارون یا امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام۔ خلفا نے شاعری کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی غرض سے پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔

شعراء نے اپنے زمانے کے حکمرانوں کے حق میں جب شور شرابا اور ہنگامہ برپا کیا، پیسے لے رہے ہیں، جرائم کر رہے ہیں، گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، حق کو کچلتے ہیں اور باطل کی تائید کرتے ہیں، تو اس دوران آئمہ علیہم السلام خاموش نہیں بیٹھے۔ انھوں نے اپنے گرد کچھ ایسے شعراء کو جمع کیا، جن کی زبان میں تاثیر تھی، شیعوں میں جس کے اندر بھی یہ فن تھا، اس کی حوصلہ افزائی کی اور بڑے تحفے دیئے۔ میں ایک الگ پہلو سے آئمہ علیہم السلام کی زندگی کے ایک خاص نکتے کی جانب متوجہ ہوا۔ میں شعر و شاعری پر تحقیق نہیں کر رہا تھا، میں نے ایک الگ پہلو سے تحقیق کرتے ہوئے یہ مطالعہ کیا کہ امام صادق اور امام باقر علیہما السلام جو تحائف دیا کرتے تھے اور امام علی نقی، امام حسن عسکری اور امام محمد تقی علیہم السلام جو تحفے دیتے تھے، ان کی رقم میں کتنا فرق ہوتا تھا۔

میں نے محسوس کیا کہ امام صادق اور امام باقر علیہما السلام مالی اعتبار سے تنگ دستی میں تھے۔ اسی لئے ان کے تحائف اور انعامات بھی کم تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے بحار الانوار میں چند روایتیں ہیں، جن میں امام فرماتے ہیں کہ میرے والد جو تحفے دیتے تھے، وہ ستر درہم، پچاس درہم، اس طرح کی رقم کے ہوتے تھے۔ پانچ روایتیں ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے ذریعے دیئے جانے والے انعامات کی رقم بہت کم ہوتی تھی۔ لیکن اسی زمانے میں مجاہد اور معروف شیعہ شاعر کمیت بن زید اسدی ایک قصیدہ کہتے ہیں اور امام باقر یا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ امام ان کے لئے ایک لاکھ درہم کی رقم کا بندوبست کرتے ہیں۔ «فامر  له مأة الف». اس طرح کے حالات تھے۔ شاعر کے لئے ایک الگ مقام و مرتبہ معین کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعری زبان میں دعوت کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعر انسان کی روح کو چھو لیتا ہے اور لوگوں کے اندر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

درباری شعراء سے آئمہ علیہم السلام کا سخت برتاؤ اور فرض شناس شعراء کی حوصلہ افزائی
خلفاء کے ارد گرد شعراء کا ایک حلقہ رہتا تھا۔ آئمہ علیہم السلام کے پاس بھی کچھ شعراء تھے۔ کچھ شعرا تھے، جو منافقت کرتے تھے۔ «کثَیِّر» نام کا ایک شاعر امام باقر علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ حضرت نے قہر آلود لہجے میں اس سے کہا؛ «امتدحت عبدالملک؟»؛ تم ہماری محبت کا دعوی کرتے ہو، خود کو ہم میں شمار کرتے ہو، پھر بھی عبدالملک کی تعریف کرتے ہو؟ «کثَیِّر» گھبرا گیا۔ انسان خود سے اپنے گناہ کا اقرار نہیں کرتا۔ اس نے عذر تراشی شروع کر دی۔ کہنے لگا؛ یابن رسول اللہ! میں نے عبدالملک کی زیادہ تعریف نہیں کی، وہ امام کو فریب دینے کی کوشش کر رہا تھا، میں نے اس سے نہیں کہا: یا امام الهدىٰ، اے رہبر و پیشوائے ہدایت۔ یعنی وہ عہدہ جس کا دعویدار وہ ہے اور آپ بھی ہیں اور درحقیقت یہ عہدہ آپ کا ہے، جسے اس نے غصب کر لیا ہے۔ میں نے یہ لقب استعمال نہیں کیا، بلکہ اسے کہا؛ یا أسد! اے شیر۔ و الأسد کلب اور شیر تو ایک طرح کا کتا ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جواز پیش کرنا چاہتا تھا۔

میں نے اس سے کہا؛ یا أفعى! اے میدان جنگ کے سانپ۔ وہى جو حشرات الارض میں شمار ہوتا ہے۔ میں نے اس سے کہا؛ یا شمس، یا قمر اے آفتاب، اے ماہتاب! یہ جمادات ہیں۔ میں نے اس طرح کے القاب استعمال کئے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ دیکھئے کہ بڑا لطیف اور ظریف اشتباہ ہوا ہے۔ یا تو واقعی اس سے غلطی ہوئی ہے یا وہ صرف نمائش کر رہا ہے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ حالانکہ ایسا ہو تب بھی وہ قابلِ اعتراض ہے۔ کیا امام کو نہیں معلوم تھا کہ اس نے کیا کہا ہے، پست انسان! کیا امام کو یہ نہیں معلوم کہ اس نے کہا ہے یا اسد؟ امام نے یہی سنا ہے اور اس پر  اعتراض کر رہے ہیں۔ اُسے یہ بھی نہیں کہنا چاہیئے تھا، اُسے بالکل تعریف نہیں کرنا چاہیئے تھی، یہ غلط تھا کہ وہ عبدالمل کی خدمت میں جائیں اور اس کی راہ میں مددگار بنے۔ ہم نے مان لیا کہ اس نے امام الھدیٰ نہیں کہا، مگر اسے یا اسد بھی نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ «فتبسّم(علیه‏السّلام)» امام مسکرائے، یعنی یہ کہ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ حقیقت حال معلوم ہے۔ اس کے بعد آپ نے کمیت کی جانب دیکھا اور فرمایا؛ "اب تم پڑھو، اب تم پڑھو اے ہمارے شاعر! تم پڑھو اے شاعرِ حقیقت!" «فأنشد الکمیت: من لقلب متیّم مستهام» کمیت نے عالی مضمون کے حامل اپنے اشعار «هاشمیّات» پڑھنا شروع کیا۔ یہ پورا قصیدہ سراپا انقلاب تھا۔

یہ وہی کمیت ہیں، جو اپنی شاعری کی وجہ سے حکومت کی نظروں میں آگئے اور خلیفہ انھیں گرفتار کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کمیت بیس سال تک روپوش رہے۔ وہ کہتے تھے کہ میں بیس سال سے اپنا گھر اپنے دوش پر لئے پھر رہا ہوں۔ بعد میں انھیں امان مل گئی، لیکن پھر ایک معمولی سا بہانہ تراش کر انھیں قتل کر دیا گيا۔ وہ حاکم کوفہ کے دربار میں داخل ہوئے۔ وہیں ایک چھوٹا سا بہانہ پیش کرکے، صاف ظاہر تھا کہ عمداً بہانہ تراشی کی جا رہی ہے، وہ کمیت کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے، ترک غلاموں سے کہا؛ "ٹوٹ پڑو اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو!" وہ کمیت پر ٹوٹ پڑے اور تلوار سے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ ان کے بیٹے نقل کرتے ہیں۔ کہتے ہیں؛ "جیسے ہی میرے والد زمین پر گرے، میں ان کے سرہانے پہنچا، میں نے دیکھا کہ آخری لمحات میں نحیف آواز میں کہہ رہے تھے؛ «اللّهمّ آل محمّد، اللّهمّ آل محمّد، اللّهمّ آل محمّد»؛ " خدایا یہ آل محمد کی خاطر ہے، خدایا یہ حق کے دفاع کی وجہ سے ہے، آل محمد کی خاطر ہے، مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیوں قتل کیا گیا ہے۔شعراء کا ایک گروہ ایسا بھی تھا۔ یہ بڑا پرشکوہ موقف ہے، جو اس وقت کے شعراء نے اختیار کیا اور اس انداز سے عمل کیا۔ شیعوں کے شعراء ایسے تھے۔ (رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے خطاب سے اقتباس)

آخر میں فرزدق کے شہرہ آفاق قصیدہ کا ترجمہ
خلیفہ بنی امیہ ہشام بن عبدالملک حج پر گیا اور طواف کے بعد اس نے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اپنی پوری دنیاوی شان و شوکت کے ساتھ چل پڑا۔ لیکن لوگ طواف اور اللہ کی تسبیح میں اتنے مشغول تھے کہ بادشاہ کو حجرِ اسود کی طرف جانے نہ دیا اور ہشام کے غلام بھی بے بس نظر آئے۔ پھر ہشام پلٹ گیا، ایک اونچے تخت پر جا بیٹھا اور حاجیوں کو دیکھنے لگا۔ اسی وقت امام زین العابدین علیہ السلام کی مسجد الحرام میں آمد ہوئی اور لوگوں نے آپ علیہ السلام کو راستہ دینا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر ہشام چونک اٹھا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کون شخصیت ہیں۔ ہشام نے جان کر انجان بنتے ہوئے کہا میں نہیں جانتا یہ کون ہیں اور کیوں لوگ ان کے ارد گرد جمع ہیں۔ فرزدق نے، جو اس وقت وہاں موجود تھے، جواب دیا: ’’لیکن میں جانتا ہوں یہ کون شخصیت ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر ایک طویل قصیدہ بیان کیا:

يَا سَائِلِي اَيْنَ حَلَّ الْجُودُ وَ الْكَرَمُ
عِنْدِي بَيَانٌ إِذَا طُلَّابُهُ قَدِمُوا

اے جود و کرم، شرافت و بزرگی کے مرکز کے بارے میں سوال کرنے والے، اس کا واضح جواب میرے پاس ہے، اگر سوال کرنے والے میرے پاس آئیں۔
هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ
وَ الْبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ‏

یہ وہ ہیں جنہیں مکہ کی زمین ان کے قدموں کے نشانات پہچانتی ہے۔ خدا کا گھر (خانہ کعبہ) حرم اور حرم کے باہر کی سرزمیں ان کو پہچانتی ہے۔
هَذَا ابْنُ خَيْرِ عِبَادِ اللهِ كُلِّهِمْ
هَذَا التَّقِيُّ النَّقِيُّ الطَّاهِرُ الْعَلَمُ‏

یہ بہترین بندگان خدا کے فرزند ہیں۔ یہ پرہیزگار، پاک و پاکیزہ اور ہدایت کا پرچم ہیں۔
هَذَا الَّذِي أَحْمَدُ الْمُخْتَارُ وَالِدُهُ
صَلَّى عَلَيْهِ إِلَهِي مَا جَرَى الْقَلَمُ‏

یہ وہ ہیں، خدا کے منتخب کردہ رسول احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے والد ہیں، جن پر خدا ہمیشہ درود و سلام بھیجتا رہتا ہے۔
لَوْ يَعْلَمُ الرُّكْنُ مَنْ قَدْ جَاءَ يَلْثِمُهُ
لَخَرَّ يَلْثِمُ مِنْهُ مَا وَطِئَ الْقَدَمُ‏

اگر حجر اسود کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کا بوسہ لینے آرہا ہے تو بلا اختیار خود کو زمین پر گرا کر ان کے قدموں کا بوسہ لیتا۔
هَذَا عَلِيٌّ رَسُولُ اللهِ وَالِدُهٗ
أَمْسَتْ بِنُورِ هُدَاهُ تَهْتَدِي الْأُمَمُ‏

یہ علیؑ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے والد ہیں۔ ان کی ہدایات سے امتیں ہدایت یافتہ ہوتی ہیں۔
هَذَا الَّذِي عَمُّهٗ الطَّيَّارُ جَعْفَرٌ
وَ الْمَقْتُولُ حَمْزَةُ لَيْثٌ حُبُّهُ قَسَمٌ‏

جناب جعفر طیار اور جناب سید الشہداء حمزہ ان کے چچا ہیں۔ یہ وہ شیر الہیٰ ہیں کہ بہادر اور دلیر جن کی قسم کھاتے ہیں۔
هَذَا ابْنُ سَيِّدَةِ النِّسْوَانِ فَاطِمَةَ
وَ ابْنُ الْوَصِيِّ الَّذِي فِي سَيْفِهِ نِقَمٌ‏

یہ عورتوں کی سردار فاطمہ زہراء کے فرزند ہیں اور وصی پیغمبر کے فرزند ہیں، جن کی تلوار میں (مشرکین و کافرین کی) موت چھپی ہوتی ہے۔
إِذَا رَأَتْهُ قُرَيْشٌ قَالَ قَائِلُهَا
إِلَى مَكَارِمِ هَذَا يَنْتَهِي الْكَرَمُ‏

قریش ان کو دیکھ کر اعتراف کرتے ہیں کہ شرافتیں اور بزرگیاں ان کی ذات پر ختم ہوتی ہیں۔
يُنْمِي إِلَى ذِرْوَةِ الْعِزِّ الَّتِي قَصُرَتْ
عَنْ نَيْلِهَا عَرَبُ الْإِسْلَامِ وَ الْعَجَمُ-

یہ عزت کی اس بلندی پر فائز ہیں، جہاں عرب و عجم پہنچنے سے قاصر ہیں۔
وَ لَيْسَ قَوْلُكَ مَنْ هَذَا بِضَائِرِهِ
الْعَرَبُ تَعْرِفُ مَنْ أَنْكَرْتَ وَ الْعَجَمُ‏

(اے ہشام) تیرا یہ کہنا کہ "یہ کون ہیں" اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ جس کو تو نہیں پہچانتا، اس کو عرب و عجم پہچانتے ہیں۔
يُغْضِي حَيَاءً وَ يُغْضَى مِنْ مَهَابَتِهِ
فَمَا يُكَلَّمُ إِلَّا حِينَ يَبْتَسِمُ

وہ حیا سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں، لوگ ان کی ہیبت سے نظر اٹھا کر انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ ان سے گفتگو بس اس وقت ممکن ہے، جب ان کے لبوں پر مسکراہٹ ہو۔
يَنْجَابُ نُورُ الدُّجَى عَنْ نُورِ غُرَّتِهِ
كَالشَّمْسِ يَنْجَابُ عَنْ إِشْرَاقِهَا الظُّلَمُ‏

ان کی پیشانی کے نور سے تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ جس طرح آفتاب اندھیروں کو دور کر دیتا ہے۔
مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُّدِهِ
لَوْ لَا التَّشَهُّدُ كَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمْ‏

وہ اس قدر سخی ہیں، اگر تشہد میں "لا" (نہیں) ہوتا تو ان کی زبان مبارک سے کبھی "لا" نہ جاری نہ ہوتا۔
مُشْتَقَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ نَبْعَتُهُ
طَابَتْ عَنَاصِرُهُ وَ الْخِيمُ وَ الشِّيَمُ‏

ان کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ پاک و پاکیزہ اخلاق و کردار اور بہترین عادات و اطوار۔
حَمَّالُ أَثْقَالِ أَقْوَامٍ إِذَا فَدَحُوا
حُلْوُ الشَّمَائِلِ تَحْلُو عِنْدَهُ نِعَمٌ‏

قوم کی ہدایت کا بار گراں کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں، جس کو اٹھانے سے پہاڑ انکار کرتے ہیں۔
إِنْ قَالَ قَالَ بِمَا يَهْوَى جَمِيعُهُمْ
وَ إِنْ تَكَلَّمَ يَوْماً زَانَهُ الْكَلِمُ‏

اگر وہ لبوں کو جنبش دیں تو سب ان کی بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو فصاحت و بلاغت کی زینت ہے۔
هَذَا ابْنُ فَاطِمَةَ إِنْ كُنْتَ جَاهِلَهُ
بِجَدِّهِ أَنْبِيَاءُ اللهِ قَدْ خُتِمُوا

اگر تو انہیں نہیں جانتا تو جان لو یہ فرزند فاطمہؑ ہیں۔ انہیں کے جد پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوا۔
اللهُ فَضَّلَهُ قِدَماً وَ شَرَّفَهُ
جَرَى بِذَاكَ لَهُ فِي لَوْحِهِ الْقَلَمُ‏

خدا نے ان کو اولین و آخرین پر فضیلت و شرف عطا کیا ہے۔ لوح محفوظ کے قلم نے ان کے بارے میں یہی تحریر کیا ہے۔
مَنْ جَدُّهُ دَانَ فَضْلُ الْأَنْبِيَاءِ لَهُ
وَ فَضْلُ أُمَّتِهِ دَانَتْ لَهَا الْأُمَمُ‏

یہ وہ ہیں، جن کے جد کے فضائل کے سامنے تمام انبیاء علیہم السلام کے فضائل ہیچ ہیں۔ ان کے جد کی امت کو بھی تمام انبیاء علیہم السلام کی امت پر فضیلت حاصل ہے۔
عَمَّ الْبَرِيَّةَ بِالْإِحْسَانِ وَ انْقَشَعَتْ
عَنْهَا الْعَمَايَةُ وَ الْإِمْلَاقُ وَ الظُّلَمُ‏

ان کی بخشش و عطا ساری مخلوقات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ ضلالت، گرسنگی اور تاریکی ان سے کوسوں دور ہے۔
كِلْتَا يَدَيْهِ غِيَاثٌ عَمَّ نَفْعُهُمَا
يَسْتَوْكِفَانِ وَ لَا يَعْرُوهُمَا عَدَمٌ‏

ان کے دونوں ہاتھ خدا کے ابر رحمت کی طرح ہیں، جس سے ہر ایک فیضیاب ہو رہا ہے۔ عدم و محرومی کا یہاں گذر نہیں ہے۔
سَهْلُ الْخَلِيقَةِ لَا تُخْشَى بَوَادِرُهُ
يَزِينُهُ خَصْلَتَانِ الْحِلْمُ وَ الْكَرَمُ‏

ایسے نرم و نیک ہیں کہ سختی کا گذر نہیں ہے۔ انہوں نے بردباری اور شرافت کو زینت دی ہے۔
لَا يُخْلِفُ الْوَعْدَ مَيْمُوناً نَقِيبَتُهُ
رَحْبُ الْفِنَاءِ أَرِيبٌ حِينَ يُعْتَرَمُ‏

یہ اس قدر بابرکت ہیں کہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے ہیں۔ ان کی بارگاہ ہر ایک کے لئے پناہ گاہ ہے۔
مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَ بُغْضُهُمْ
كُفْرٌ وَ قُرْبُهُمْ مَنْجَى وَ مُعْتَصَمٌ‏

یہ اس بزرگ خاندان کے فرزند ہیں، جن کی محبت دین، جن کی دشمنی کفر اور جن سے قربت نجات اور سعادت کا سبب ہے۔
يُسْتَدْفَعُ السُّوءُ وَ الْبَلْوَى بِحُبِّهِمْ
وَ يُسْتَزَادُ بِهِ الْإِحْسَانُ وَ النِّعَمُ‏

ان کی محبت و ولایت سے ہر فتنہ و شر دور ہوتا ہے۔ ان کی بخشش و عطا میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِكْرِ اللهِ ذِكْرُهُمْ
فِي كُلِّ فَرْضٍ وَ مَخْتُومٌ بِهِ الْكَلِمُ‏

خدا کے نام کے بعد ہر ابتداء اور انتہاء میں ان کا نام لیا جاتا ہے۔
إِنْ عُدَّ أَهْلُ التُّقَى كَانُوا أَئِمَّتَهُمْ
أَوْ قِيلَ مَنْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ قِيلَ هُمْ‏

اگر پرہیزگاروں کا تذکرہ ہو تو یہ پرہیزگاروں کے سردار ہیں۔ اگر دریافت کیا جائے کہ ساری دنیا میں سب سے بہترین کون تو بس ان کا نام لیا جائیگا۔
لَا يَسْتَطِيعُ جَوَادٌ بُعْدَ غَايَتِهِمْ
وَ لَا يُدَانِيهِمْ قَوْمٌ وَ إِنْ كَرُمُوا

ان کی سخاوت کے بعد کسی سخی کی سخاوت کا ذکر نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی قوم کے شریف اور بزرگ ان کے ہم رتبہ نہیں ہیں۔
هُمُ الْغُيُوثُ إِذَا مَا أَزْمَةٌ أَزَمَتْ
وَ الْأُسُدُ أُسُدُ الشَّرَى وَ الْبَأْسُ مُحْتَدِمٌ‏

قحط کے زمانہ میں یہ باران رحمت ہیں اور جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھے تو یہ مرد میدان ہیں۔
يَأْبَى لَهُمْ أَنْ يَحُلَّ الذَّمُّ سَاحَتَهُمْ
خِيمٌ كَرِيمٌ وَ أَيْدٍ بِالنَّدَى هُضُمٌ

پستیاں ان کی بارگاہ میں قدم نہیں رکھ سکتیں۔ ایسے بزرگ ہیں، جن کا دست کرم بارش کی طرح ہمیشہ فیض پہنچاتا رہتا ہے۔
لَا يَقْبِضُ الْعُسْرُ بَسْطاً مِنْ أَكُفِّهِمْ
سِيَّانِ ذَلِكَ إِنْ أَثْرَوْا وَ إِنْ عَدِمُوا

تنگی نے کبھی بھی ان کے وجود کو متاثر نہیں کیا۔ تنگی اور فراوانی ان کے یہاں ایک جیسی ہے۔
أَيُّ الْقَبَائِلِ لَيْسَتْ فِي رِقَابِهِمْ
لِأَوَّلِيَّةِ هَذَا أَوْ لَهُ نِعَمٌ‏

وہ کون سا خاندان اور قبیلہ ہے، جس کی گردن پر ان کا اور ان کے بزرگواروں کا احسان نہ ہو۔
مَنْ يَعْرِفُ اللَّهَ يَعْرِفُ أَوَّلِيَّةَ ذَا
فَالدِّينُ مِنْ بَيْتِ هَذَا نَالَهُ الْأُمَمٌ

جو خدا کو پہچانتا ہے، وہ ان کے آباء و اجداد کی معرفت رکھتا ہے۔ لوگوں نے انہیں کے بیت الشرف سے دین اور ہدایت حاصل کی ہے۔
بُيُوتُهُمْ فِي قُرَيْشٍ يُسْتَضَاءُ بِهَا
فِي النَّائِبَاتِ وَ عِنْدَ الْحُكْمِ إِنْ حَكَمُوا

قریش میں صرف ان کا گھرانہ ہے، جہاں لوگوں کی مشکلات حل ہوتی ہیں۔ اسی گھر میں صحیح اور حقیقی فیصلے کئے جاتے ہیں۔
فَجَدُّهُ مِنْ قُرَيْشٍ فِي أَرُومَتِهَا
مُحَمَّدٌ وَ عَلِيٌّ بَعْدَهُ عَلَمٌ‏

ان کے جد بزرگوار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد دوسرے جد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ہیں، جو امام اور پرچم ہدایت ہیں۔
بَدْرٌ لَهُ شَاهِدٌ وَ الشِّعْبُ مِنْ أُحُدٍ
وَ الْخَنْدَقَانِ وَ يَوْمُ الْفَتْحِ قَدْ عَلِمُوا

ان کی بہادری، قربانی اور خلوص پر جنگ بدر، احد کی گھاٹی، جنگ خندق، فتح مکہ سب گواہ ہیں۔
وَ خَيْبَرُ وَ حُنَيْنٌ يَشْهَدَانِ لَهُ
وَ فِي قُرَيْظَةَ يَوْمٌ صَيْلَمٌ قَتِمٌ

خیبر و حنین ان کی عظمتوں کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ جنگ بنی قریض اور جنگ تبوک ان کے مدح خواں ہیں۔ (بحار الانوار، ج ۴۶، ص ۱۲۴-۱۲۸، ح ۱۷ نقل از مناقب ابن شہر آشوب، حلیۃ الاولیاء اور الاغانی) ہمارا مخلصانہ سلام ہو اس بزرگ مرتبہ شاعر اہل بیت علیہم السلام پر!
خبر کا کوڈ : 1148376
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
فرزدق کے ان اشغار کے بارے بہت سن رکھا تھا، لیکن پورا قصیدہ اور اسکے اردو ترجمے سے محروم تھے۔ اسلام ٹائمز اور کالم نگار کا بہت شکریہ۔
ہماری پیشکش