0
Friday 20 Sep 2024 21:10

قانون سازی آئینی حدود میں ہی ممکن ہے، پارلیمان کے اختیار قانون سازی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

قانون سازی آئینی حدود میں ہی ممکن ہے، پارلیمان کے اختیار قانون سازی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے، قانون سازی آئین میں دی گئی حدود کے مطابق ہی ممکن ہے۔ عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انکم ٹیکس آفیسرز کی اپیلیں جزوی طور پر منظور کرلیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی، عدالت عالیہ سندھ نے 2001ء میں انکم ٹیکس کے آرڈیننس میں کچھ ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔ 41 صفحات پر مبنی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آرٹیکل 142 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی بھی کرسکتی ہے، جس کا ماضی سے اطلاق ہوتا ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ قوانین کا ماضی سے اطلاق ہونا آئین سے مشروط ہے، لفظ آئین سے مشروط کا مطلب ہے کہ قانون سازی آئین میں دی گئی حدود کے مطابق ہی ممکن ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین پارلیمان پر پابندی عائد کرتا ہے، آرٹیکل 9 اور 28 میں دیئے گئے حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے، آرٹیکل 12 کے مطابق فوجداری معاملات میں قوانین کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ صرف آئین شکنی سے متعلق فوجداری معاملے پر قانون سازی ماضی سے ہوسکتی ہے، سول حقوق کو ماضی سے لاگو کرنے کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو اختیار نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کے ماضی سے اطلاق سے فریقین کے حقوق متاثر ہوسکتے ہیں، شہریوں کو موجودہ قوانین کا علم ہوتا ہے، جس کے مطابق وہ اپنے امور انجام دیتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مستقبل میں اگر کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے؟ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا، قوانین کے ماضی سے اطلاق سے حتمی ہوئے معاملات بھی دوبارہ کھل سکتے ہیں۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ کسی قانون کی 2 تشریحات ممکن ہوں تو وہی کرنی چاہیئے، جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے، جتنی زیادہ ناانصافی ہوگی، مقننہ کا کردار بھی اتنا ہی واضح ہونا چاہیئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت ماضی میں قرار دے چکی کہ قانون میں ترمیم یا قانون ختم کرنا ایک ہی جیسا ہے، کوئی بھی ترمیم دراصل کسی نہ کسی انداز میں قانون یا کسی شق کا خاتمہ ہی ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ماضی سے اطلاق صرف انہی قوانین کا ممکن ہے، جو پہلے سے دیئے گئے حقوق کو ختم نہ کرے۔
خبر کا کوڈ : 1161323
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش