0
Tuesday 16 Jul 2024 19:20

رہبر انقلاب اسلامی کی روز عاشورہ کی مجلس سے اقتباس

رہبر انقلاب اسلامی کی روز عاشورہ کی مجلس سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

آج روز عاشور ہے۔ آج کربلا کے پرشکوہ واقعے کو یاد کرنا چاہیئے۔ آج اسی واقعے کے بارے میں زیادہ گفتگو کرنا چاہیئے۔ انسان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس واقعے پر زیادہ سے زیادہ گریہ کیا جائے۔ جو بھی انسان ہے، وہ اس سانحے پر روتا ہے۔ اس لئے کہ انسانیت کی یاد منائی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ فضیلت کا واقعہ ہے۔ جو فضیلت سے لگاؤ رکھتا ہے اس عظیم تاریخی سانحے سے وہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اتنا روئیں کے بے ہوش ہو جائیں اور ہماری سمجھ میں یہ نہ آئے کہ ہم گریہ کیوں کر رہے ہیں۔ نہیں ایسے گریے کی قیمت نہیں ہے۔ وہ گریہ جو پوری توجہ سے ہو، وہ گریہ جو واقعے کے مکمل ادراک کے ساتھ ہو، وہ گریہ جو حقیقت کی آگاہی کے ساتھ ہو، انسانیت اور فضیلت کی علامت ہے۔ گریہ وہ ذریعہ ہے جسے آئمہ علیہم السلام کے زمانے میں اسلام کے لئے اور حقیقت کے لئے بروئے کار لایا گيا۔

میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ آج اس میں بڑی تحریف کر دی گئی ہے۔ اسلام میں اور شیعہ مسلک میں گریہ کا اصلی فلسفہ یہ ہے کہ گریہ متحرک کرنے والا ہے، حرکت میں لانے والا ہے، حقائق سے روشناس کرانے والا ہے، احساسات کو لطافت بخشنے والا ہے، انقلابی انسان کو اور بھی حساس بنانے والا ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر کچھ سوچے سمجھے یونہی آنسو بہا رہا ہے تو بے شک اس کا دل ہلکا ہو جائے گا، لیکن یہ گریہ امام حسین علیہ السلام کے لئے نہیں ہے۔ وہ اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے رو رہا ہے، گھر کا کرایہ نہیں دے پایا، اس پر رو رہا ہے، بھوک وغیرہ کی وجہ سے رو رہا ہے۔ اس گریے سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ میں اہل معرفت کے گریے کی بات کر رہا ہوں۔ میں خود بھی اس گریہ کا حامی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو گریہ کرنے والے اہل معرفت پر۔

امام رضا علیہ السلام کے حضور دعبل نے امام حسین کے مصائب بیان کئے۔ دعبل خزاعی آٹھویں امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ امام ابھی مدینے میں ہیں اور عباسی سیاست نے ابھی تک امام ؑ کو خراسان کوچ کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے۔ یہ بھی ایک الگ باب ہے۔ دعبل بڑے شاعر اور مبلغ ہیں۔ وہ آٹھویں امام کے پسندیدہ شاعر اور اپنے زمانے میں شیعہ مسلک کا ایک ستون ہیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا؛ "دعبل تمہارے پاس کچھ اشعار نہیں ہیں کہ سناؤ؟!" امام شعر کی اصلاح بھی فرماتے تھے۔ جب دعبل نے امام کے لئے کچھ اشعار پڑھے تو آپ نے ان کے اشعار کی تصحیح فرمائی، ایسی تصحیح کی کہ وہ بڑا شاعر کہنے لگا؛ "«أنت یا سیّدى أشعر منّى»؛ "اے مولیٰ سب سے بڑے شاعر تو آپ ہیں۔" یہاں یہ معاملہ آپ کی فکر کا ہے، آپ کی روش کا ہے، آپ کے کارواں کا ہے، لہذا آپ دعبل سے کہتے ہیں کہ کچھ اشعار نہیں ہیں کہ ہمیں سناؤ؟ دعبل نے کہا کیوں نہیں اے فرزند رسول! اشعار ہیں، میں پڑھوں؟ امام نے فرمایا کہ پڑھو! دعبل نے اپنا وہ معروف طولانی قصیدہ پڑھنا شروع کیا۔ یہ قصیدہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے؛
أ فاطمُ لو خلت الحسین مجدّلا
و قد مات عطشـــــانا بشطّ فرات


یہ اشعار واقعہ کربلا اور عاشور سے مربوط ہیں اور ان میں خطاب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے ہے۔ شاعر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو مخاطب کر رہا ہے۔ دختر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کر رہا ہے۔ کیوں؟ عام طور پر جب اس کی تشریح کی جاتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ چونکہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا مادر حسین ہیں اور ماں کو اپنے بیٹے پر گریہ کرنے کا حق سب سے زیادہ ہوتا ہے، ماں کا دل اپنے بچے کے لئے روتا ہے۔ اسی لئے حضرت فاطمہ زہراء سے خطاب کیا گيا ہے۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وجہ یہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ دعبل شیعہ انقلابیوں میں سے ایک ہیں اور آٹھویں امام انقلاب کے رہبر ہیں۔؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ یہ اشعار تاریخ شیعہ کے سب سے بڑے انقلابی رہنماء یعنی حسین ابن علی اور شیعہ تحریک کے رہبر اور ماضی کے واقعات کی  یاد تازہ کرنے والے ہیں۔؟ کیا ایسا نہیں ہے۔؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو ایک انقلابی ہستی دوسرے انقلابی کا مرثیہ بیان کر رہی ہے اور ہدف یہ ہے کہ احساسات کو برانگیختہ کیا جائے۔

اسی لئے خطاب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے ہے، کیونکہ شیعہ انقلاب زہراء سلام اللہ علیہا کے نام سے شروع ہوا۔ شیعہ مسلک کی پہلی انقلابی ہستی حضرت فاطمہ زہراء دختر رسول ہیں۔ میں نے ایک دن آپ کے سامنے اس کی تشریح کی۔ لہذا خطاب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے ہے اور کہتے ہیں؛ «أ فاطم لو خلت الحسین مجدّلا»، "اے فاطمہ زہرا! اے دختر رسول! کیا آپ کو یہ اندازہ تھا کہ آپ کا بیٹا حسین کربلا کی تپتی زمین پر تیز دھوپ میں بےکفن پڑا ہوگا؟ کیا آپ نے کبھی ایسا سوچا تھا اے فاطمہ زہرا؟ جب آپ نے اپنی مہم شروع کی اور بڑی مصیبتوں کا سامنا کیا تو کیا کبھی ایسا سوچا تھا؟" «و قد مات عطشانا بشطّ فرات»، "کیا آپ کو یہ اندازہ تھا کہ آپ کا بیٹا حسین فرات کے کنارے پیاسا شہید کر دیا جائے گا؟ اس کی لاش کو گرم ریگزار پر ڈال دیا جائے گا؟ کیا آپ کو اس کا اندازہ تھا اے فاطمہ زہرا؟"

أ فاطم قومى یا ابنة الخیر و اندبى
نـجـوم سـمــــــــــــــاوات بـأرض فـلاة

"اے بنت رسول! اٹھیے، آنسو بہائیے کہ آسمان کے ستارے صحرا میں بکھر گئے ہیں۔ آسمان کے یہ ستارے فاطمہ کے بچے ہیں، فاطمہ کے فرزند ہیں۔" دعبل کا اشارہ کس جانب ہے؟ وہ کون سا جانگداز واقعہ بیان کر رہے ہیں؟ آج کے دن، غروب آفتاب سے پہلے جب حقیقت کے ترکش کا آخری تیر یعنی امام حسین علیہ السلام میدان میں آئے اور قلب دشمن سے ٹکرائے۔ خاک و خون میں غلطاں زمین پر گرے۔ اچانک خواتین کو پتہ چلا کہ حسین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس سے  پہلے کہ وہ کچھ کریں، دشمن آکر حسینی خیام میں آگ لگا دیتا ہے۔ بچیاں صحرا کی سمت بھاگتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1148066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش