0
Sunday 14 Jul 2024 15:43

ناکام قاتلانہ حملہ

ناکام قاتلانہ حملہ
تحریر: سید رضا میر طاہر

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مقامی وقت کے مطابق ہفتہ کی شام پنسلوانیا کے علاقے بٹلر میں اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا، جب وہ اپنے حامیوں کے انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ صدارتی انتخابات کے موقع پر ان کے زخمی ہونے کا واقعہ بڑی تیزی سے امریکی میڈیا کی خبروں کی زینت بن گیا۔ اس واقعہ پر ملک کے  اندر اور باہر ردعمل سامنے آرہا ہے۔ پنسلوانیا میں ٹرمپ کی تقریر کے دوران کسی نے ان پر گولی چلائی اور ایک گولی ان کے دائیں کان میں لگی۔ پنسلوانیا، بٹلر کے پراسیکیوٹر رچرڈ گولڈنگر نے اعلان کیا کہ ٹرمپ پر فائرنگ کے واقعے میں ایک تماشائی اور شوٹر ہلاک ہوگئے جبکہ ایک اور تماشائی کی حالت تشویشناک ہے۔ ایف بی آئی کی طرف سے اس شوٹنگ کی تحقیقات جاری ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔

ایف بی آئی کے اسپیشل انچارج کیون روزیک نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ "آج رات جو کچھ ہوا، ہم اسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی کوشش قرار دیتے ہیں۔" ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو گولی مارنے والے 20 سالہ تھامس میتھیو کروکس کے نام کا بھی اعلان کیا۔ ٹرمپ کو گولی مارنے سے پہلے، اس نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں اس نے کہا ہے کہ میں تھامس میتھیو کروکس ہوں، میں ریپبلکن سے نفرت کرتا ہوں، مجھے ٹرمپ سے شدید نفرت ہے۔ ٹرمپ کو گولی مارنے کے واقعے کو امریکہ میں سیاسی تشدد میں اضافے کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس میں حالیہ برسوں میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا ہے، خاص طور پر 6 جنوری 2021ء کو ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے امریکی کانگریس پر حملے کے بعد یہ صورت حال واضح ہوکر سامنے آئی ہے۔

درحقیقت، اس وقت اپنی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے جو کچھ بویا تھا، اب وہی کاٹ رہے ہیں۔ اس متشدد رویئے کو خود انہوں نے فروغ دیا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ریلی میں فائرنگ کے بعد کہا کہ امریکہ میں اس طرح کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کئی سابق اور موجودہ امریکی حکام کے ساتھ ساتھ غیر ملکی حکام نے بھی اس فائرنگ کی مذمت کی ہے۔ امریکا میں بہت سے ریپبلیکنز اراکین کانگریس نے ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کا قصور وار موجودہ صدر بائیڈن کو ٹھہرایا ہے۔ اسپوتنیک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کے کئی ریپبلکنز اراکین نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی ہے۔

ریپبلکن پارٹی کے تقریباً 30 ارکان نے براہ راست امریکی صدر جو بائیڈن، ان کی ڈیموکریٹک پارٹی یا اس پارٹی سے وابستہ میڈیا پر اس قاتلانہ حملے کے لیے اکسانے کا الزام لگایا ہے۔ ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والے سینیٹر "جے ڈی وینس" نے ایکس سوشل نیٹ ورک پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ بائیڈن کی انتخابی مہم کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک فاشسٹ آمر و جابر ہیں اور انہيں ہر بھی قیمت پر روکا جانا چاہیئے اور یہی بیان بازی براہ راست سابق صدر ٹرمپ پر قاتلانہ حملے پر منتج ہوئی۔ درجنوں امریکی قانون سازوں نے بھی سوشل نیٹ ورک پر اپنے پیغامات میں بائیڈن یا ٹرمپ کے دیگر ناقدین پر ان کے قتل کا الزام لگایا ہے۔

ٹرمپ کی ناکام قاتلانہ کوشش کے ردعمل میں، سابق امریکی صدر براک اوباما نے X پر لکھا: "ہماری جمہوریت میں سیاسی تشدد کے لیے قطعی طور پر کوئی جگہ نہیں ہے۔" ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے بھی ایک بیان جاری کیا اور کہا: "چاہے انتہائی بائیں بازو ان پر کچھ بھی پھینکے، وہ امریکہ کو بچانے کے لیے لڑنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔" ٹرمپ کے بیٹے نے ایکس سوشل نیٹ ورک پر واقعے کو "دہشت گردی" قرار دیا۔ امریکی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سیاسی حکام اور رہنماء نیز سیاسی اور سماجی کارکن ہمیشہ سیاسی تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ اس معاملے کی واضح مثال نومبر 1963ء میں ڈیلاس، ٹیکساس میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل، نیز جون 1968ء میں لاس اینجلس میں۔

افریقی امریکیوں کی شہری حقوق کی تحریک کے رہنماء مارٹن لوتھر کنگ کا قتل خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔ جس ملک میں صدر، صدارتی امیدوار اور سماجی جدوجہد کے رہنماؤں کو قتل کیا گیا ہو، وہاں ڈونلڈ ٹرمپ کا ناکام قتل کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے۔ دوسری طرف، امریکی معاشرے میں، خاص طور پر جنوری 2021ء میں کانگریس پر حملے کے واقعے کے بعد، کشیدگی اور سیاسی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سامنا ہے۔ اس وقت امریکہ میں سیاسی نظریاتی اختلافات کی آگ بھڑک رہی ہے۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان انتخابی مقابلے میں دو حریفوں کی جانب سے ایک دوسرے پر سخت تبصرے اور الزامات عائد کیے گئے ہیں اور حریف ایک دوسرے پر امریکا کو تباہ کرنے کی کوشش کا الزام لگا رہے ہیں۔

ایسی اشتعال انگیز اور کشیدہ صورت حال میں، یہ توقع بعید نہیں ہے کہ انتہائی خیالات اور نظریات کا حامل کوئی شخص چاہے اس کا تعلق دائیں یا بائیں سے، وہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بندوق تان کر انتخابی امیدوار کو قتل کر دے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں آتشیں اسلحے تک رسائی کتابوں تک رسائی سے زیادہ آسان ہے اور شہریوں کی آبادی سے زیادہ آتشیں اسلحہ دستیاب ہو، وہاں اس طرح کا رویہ ناقابل تصور نہیں۔ انتخابات کے بعد اگر 2020ء میں امریکی کانگریس پر حملے کے بعد انتخابات پر جنگ اور لڑائی عروج پر تھی تو اب 2024ء میں انتخابات سے پہلے یہ جنگیں اور لڑائیاں واپس آگئی ہیں۔

اس تناظر میں ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس واقعہ سے موقع پرستی ہے۔ وہ اس واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اپنے ہمدردی کے ووٹ میں اضافہ کرسکتا ہے اور بالآخر ان امریکی شہریوں کا ووٹ جنہوں نے ووٹ دینے کے بارے میں ابھی قطعی فیصلہ نہیں کیا ہے، وہ دو دستیاب امیدواروں یعنی بائیڈن اور ٹرمپ مین ٹرمپ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ناکام قاتلانہ حملے سے ریپبلکنز کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

دوسرے لفظوں میں ٹرمپ کے ناکام قتل کا فاتح خود ٹرمپ ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹک کیمپ میں افراتفری بھی ابھر رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ مرکزی امیدوار جو کہ ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن ہیں، ان کو پارٹی بغاوت کے ذریعے انتخابی امیدواری سے ہٹا دیا جائے اور ایک نئے ڈیموکریٹک امیدوار کو ٹرمپ کے مدمقابل متعارف کرایا جائے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹرمپ کو گولی لگنے کے واقعے کے بعد مختلف ریاستوں خصوصاً سوئنگ ریاستوں میں ان کے حامیوں کی تعداد بڑھ جائے اور ٹرمپ کے نومبر 2024ء کے صدارتی انتخابات میں جیت کے امکانات بڑھ جائیں۔
خبر کا کوڈ : 1147688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش