0
Thursday 11 Jul 2024 22:35

امریکہ کو وارننگ

امریکہ کو وارننگ

عالمی سیاست میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں اور تغیرات سے وہ چھوٹے ممالک جو پہلے سیاسی مساوات میں اہمیت کے حامل نہ تھے، اب علاقائی اور بین الاقوامی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ایک خاص مقام حاصل کرچکے ہیں۔ یمن میں انصار اللہ تحریک بھی ان نئے کھلاڑیوں میں سے ایک ہے، جس نے عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے عرب اور مغربی اتحادیوں نے یمن میں انصار اللہ کو اقتدار کے دائرے سے ہٹانے کے لیے ہر طرح کا ہتھکنڈہ استعمال کیا، لیکن انہیں پسپائی ہوئی اور ایک عشرے کے بعد بھی انصار اللہ قائم و دائم ہے اور خطے کی سیاسی مساوات میں نہ صرف اپنا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ یمن میں انصار اللہ کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 اس سلسلے میں عراقی میڈیا نے چند دن پہلے اطلاع دی ہے کہ انصار اللہ نے عراقی دارالحکومت کے ایک اہم علاقے گرین زون کے قریب اپنا دفتر قائم کیا ہے۔یہ دفتر عراقی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے متعدد محلات اور ہیڈ کوارٹرز کے علاقے میں کھولا گیا ہے۔ اس دفتر کا افتتاح عراق میں انصار اللہ کے نمائندے ابو ادریس الشرفی اور اس تحریک کے متعدد ارکان کی ان وسیع سرگرمیوں کے بعد عمل میں آیا ہے، جو 2016ء سے عراق میں جاری ہیں۔ اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے "العربی الجدید" نے عراقی سکیورٹی حکام سے رابطہ کیا، تاکہ انصار اللہ کے دفتر کے کھلنے کے بارے معلومات حاصل کرسکے، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس مسئلے پر معلومات فراہم کرنے پر راضی نہیں ہوا۔

عراقی وزیراعظم محمد الشیاع کی حکومت کے ایک مشیر کا کہنا ہے "یہ کوئی دفتر یا ایجنسی نہیں ہے، جیسا کہ اس کی تشہیر کی جا رہی ہے، بلکہ یہ انصار اللہ کے ارکان کا ہیڈ کوارٹر ہے، جو دارالحکومت کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ایک ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ "عراق کی خواہش ہے کہ یہ گروہ عراق کی سرزمین پر کسی بھی ملک کے خلاف دشمنی پر مبنی سرگرمیاں انجام نہ دے۔" جمعہ کے روز، ابو ادریس الشورافی نے شمالی بغداد میں حشد الشعبی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا، جہاں وہ ایک ویڈیو کلپ میں پاپولر موبلائزیشن فورسز کے دھڑوں کی تعریف کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔

انہوں نے کہا کہ انصار اللہ اور حشد الشعبی افواج ایک "لازمی اکائی" ہیں، جو چیلنجوں اور مسائل کے باوجود بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ الشرفی نے حشد الشعبی کے رہنماؤں کے ساتھ عراق کے متعدد جنوبی صوبوں کا دورہ کیا اور مختلف قبائل اور مذاہب کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ حال ہی میں انصار اللہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر متعدد پلیٹ فارمز کا آغاز کیا ہے، جو عراق کے اندر تحریک کے اراکین کی سرگرمیاں دکھا رہے ہیں، جن میں سب سے اہم ٹیلی گرام ایپلی کیشن پر انصار اللہ کا پلیٹ فارم ہے۔

بغداد میں انصار اللہ کے دفتر کے افتتاح کے سیاسی پیغامات
انصاراللہ کی حکومت کو عالمی برادری نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے، اس لیے عراق میں اس تحریک کے دفتر کا کھلنا متحارب ممالک کے لیے اہم پیغامات کا حامل ہے۔ انصار اللہ کے دفتر کا افتتاح صنعاء کی حکومت کو علاقے میں اور اس کے بعد بین الاقوامی نظام میں قانونی حیثیت دینے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اب یہ بات سب پر ثابت ہوچکی ہے کہ یمن کی اصل سیاسی طاقت انصار اللہ کے ہاتھ میں ہے، جو سعودی اماراتی جارحیت پسندوں کا مقابلہ کرنے اور ملک کے اندر ایک قسم کی ہم دلی اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں روس اور کسی حد تک چین جیسے ممالک کے انصار اللہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور روسیوں نے یمن کے بحران کو ختم کرنے اور سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے شرائط فراہم کرنے کے لیے کئی بار صنعاء کے رہنماؤں کی میزبانی بھی کی ہے۔ اس لیے انصاراللہ کو بغداد کے گرین زون میں آباد کرنے میں عراقیوں کی کارروائی دوسرے عرب ممالک کو بھی صنعاء کے ساتھ بات چیت کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔

انصار اللہ نے ثابت کیا ہے کہ مغربی دعوؤں کے برعکس وہ دنیا کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے اور مختلف ممالک یمن کے ساتھ اپنے سابقہ ​​تعلقات دوبارہ شروع کرسکتے اور سیاسی تعامل جاری رکھ سکتے ہیں۔ بغداد میں اس تحریک کے دفتر کا افتتاح عراق کی طرف سے صنعاء کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے، حالانکہ بغداد کے حکام نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے تحفظات کے پیش نظر اس بارے میں محتاط مؤقف اختیار کیا ہے۔ یمن میں بحران کے آغاز کے بعد سے عراق نے کبھی بھی سعودی عرب کی قیادت میں جارح اتحاد کے غیر ملکی حملے کی تائید نہیں کی۔ مارچ 2015ء میں یمن پر سعودی اماراتی اتحاد کے حملے کے وقت عراقی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس حملے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور اس کے بعد کے سالوں میں بغداد نے جنگ بند کرنے اور سیاسی مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

حالیہ برسوں میں، عراقی مزاحمتی گروہوں نے بھی یمن کے مظلوم اور جنگ زدہ عوام کے تئیں زیادہ ہمدردانہ موقف اپنایا ہے اور جارح اتحاد کے خلاف یمنیوں کی مدد کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ ایک وقت تھا، جب سعودی عرب اپنے آپ کو عرب دنیا کا لیڈر تصور کرتا تھا، وہ حالیہ برسوں میں عربوں میں اپنا سابقہ ​​وقار کھو چکا ہے۔ اس نے بغاوت کے سازشیوں کی مدد کی اور حوثیوں گے خلاف جنگ کی، لیکن اب یمن میں طاقت کے توازن میں واضح تبدیلی آچکی ہے اور جارحین پر انصار اللہ کی فتح واضح ہے۔ عرب دنیا میں یمن میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آزاد اور حقیقت پسندانہ آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ بغداد اور صنعا کے تعلقات انصار اللہ کے اقتدار میں آنے کے دس سالہ دور تک محدود نہیں ہیں بلکہ ماضی میں دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔

سرد جنگ کے دور میں جب مغربی ممالک نے خلیج فارس کے بہت سے ممالک کو اپنے کیمپ میں اکٹھا کیا تھا، یمن نے اردن اور عراق کی شمولیت سے ایک مغرب مخالف اور سوویت نواز اتحاد تشکیل دیا تھا اور یہ تعلقات حالیہ دہائیوں میں کم و بیش جاری ہیں۔ بغداد میں انصار اللہ کو سیاسی دفتر مختص کرنا ایک سادہ تعاون سے آگے کے مقاصد کا حصول ہے اور لگتا ایسا ہے کہ عراقی غیر ملکی سفارت خانوں کے ساتھ انصار اللہ کے سیاسی تعامل کے لیے ضروری پس منظر اور پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی اہداف کے علاوہ عراق کو تجارتی اور اقتصادی میدانوں میں بھی یمن کے تعاون کی ضرورت ہے۔ یمن ایک اسٹریٹیجک مقام کی وجہ سے بیرونی دنیا کو عراق کی سمندری برآمدات کا گیٹ وے ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سعودی اور امریکی اتحاد کی طرف سے یمن کی ناکہ بندی ختم کرنے سے یمن بہت اچھی پوزیشن میں آجائے گا۔

یمن آبنائے باب المندب پر ​​اپنے کنٹرول اور بحیرہ احمر کی آبی گزرگاہ تک رسائی کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور حالیہ مہینوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ انصار اللہ نے صہیونی بحری جہازوں کی آمدورفت کو کم کر دیا ہے۔ بحیرہ احمر میں میزائل آپریشن اور ایلات کے خالی ہونے سے ظاہر ہوا کہ دنیا کو صنعاء کی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیئے اور یمن کو علاقائی اور عالمی مساوات سے باہر کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی عالمی معیشت کے استحکام کے لیے بہتر ہے۔
 
امریکہ کو وارننگ
بغداد میں انصار اللہ کے دفتر کے کھلنے کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو امریکہ کے لیے ایک انتباہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کی حمایت اور خطے میں کشیدگی کو تیز کرنا چاہتا ہے تو اسے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یمن اور عراق کی مزاحمت نے گذشتہ نو مہینوں میں غزہ کے عوام کی حمایت میں "یونٹی آف دی فیلڈز" کے فریم ورک کے تحت بحیرہ احمر اور مقبوضہ علاقوں میں صہیونی بحری جہازوں پر متعدد حملے کیے ہیں اور اس آپریشنل کوآرڈینیشن کو ناکام بنایا ہے، جو یمن کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔ بعض ذرائع کا خیال ہے کہ بحیرہ احمر میں انصار اللہ کی جانب سے کی جانے والی کارروائی عراقی مزاحمت کی شرکت سے کی گئی ہے۔ یمنیوں کو  علاقے سے گزرنے والے تمام بحری جہازوں کی معلومات عراقی مزاحمتی گروپوں کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ صرف مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے جہازوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔

انصار اللہ نے عسکری میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس وجہ سے یمن میں اسے ایک اعلیٰ طاقت سمجھا جاتا ہے۔ اہل مغرب بھی اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ خطے کے حالات کو کشیدہ کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے کوئی بھی غیر سنجیدہ اقدام تباہی کا باعث بنے گا۔ انصاراللہ یمن کے رہنماؤں نے بارہا کہا ہے کہ خطے میں کشیدگی کی اصل وجہ خود امریکہ ہے، جو اسرائیل کی حمایت کرکے جنگ کے دائرہ کار کو وسعت دے رہا ہے اور بہتر یہی ہے کہ تل ابیب پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ جنگ کے خاتمے کی طرف بڑھے۔ بغداد میں انصار اللہ کو دفتر تفویض کرنا امریکہ اور صیہونیوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اگر وہ لبنان میں کوئی مہم جوئی شروع کرنا چاہتے ہیں تو مزاحمتی گروہ آرام سے نہیں بیٹھیں بلکہ حزب اللہ کے ساتھ ملکر شانہ بشانہ میدان جنگ میں دشمن کے خلاف نبردآزما ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 1147565
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش