0
Thursday 11 Jul 2024 13:30

دنیا میں مغربی میڈیا کا منفی کردار

دنیا میں مغربی میڈیا کا منفی کردار
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

قومی ریاست کے تمام ادارے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ریاست اپنے ٹیکس کی آمدن سے کسی ادارے کو سپورٹ کر رہی ہو اور اس کا کوئی بھی مقصد نہ ہو۔ ظاہری مقاصد تو بہت اچھے اور دیدہ زیب رکھے جاتے ہیں۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اصل مقصد کیا ہے؟ بی بی سی، ڈی ڈبلیو اور وائس آف امریکہ ریاستی فنڈز سے چلنے والے میڈیا ہاوسز ہیں۔ ان کے پاس بہت بڑے بجٹ ہوتے ہیں، اس لیے یہ کسی بھی ملک کے اہم صحافیوں کو بڑی تنخواہوں پر ملازم رکھ لیتے ہیں اور ان کے ذریعے ان ممالک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ممالک بڑے بڑے بلنڈر کرتے ہیں ، یہ میڈیا ہاوسز ان پر پردہ ڈالنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ان ممالک کی ریاستی پالیسی اور مغربیت کے پھیلاو میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔عام سادہ لوح آدمی ان کی پالیسی کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔

آپ ان کی غزہ کی رپورٹنگ چیک کریں، جب کسی حملے میں اسرائیلی مر جائیں گے تو یہ لوگ رپورٹنگ کریں گے کہ اتنے لوگوں کو حماس کے دہشتگردوں یا جنگجووں نے قتل کر دیا۔ جب فلسطینیوں کی بات ہوگی تو اس طرح رپورٹنگ کرتے ہیں کہ غزہ میں دو سو فلسطینی ہلاک ہوگئے۔ غور کریں، کیا ان دو سو فلسطینیوں کا کوئی قاتل نہیں؟ کیا یہ خود بخود قتل ہوگئے ہیں؟ یہ وہ طریقہ واردات ہے، جس کے ذریعے یہ لوگ حماس کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں اور  فلسطینیوں کے قتل عام پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ پچھلے چند دنوں کی بی بی سی پر آنے والی کچھ خبروں کے عناوین اور مختصر سی وضاحت ملاحظہ کریں:

"نریندر مودی کا دورہ روس اور مغرب کی تشویش: "سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ دنیا کے سب سے خونی مجرم کو گلے لگا رہا ہے، نریندر مودی سوموار کو اس وقت روس پہنچے، جب چند ہی گھنٹوں قبل یوکرین میں روسی بمباری کی وجہ سے کم از کم 41 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ روسی بمباری کے اہداف میں کیئو میں واقع ایک بچوں کا ہسپتال بھی شامل تھا، جس کے بعد عالمی سطح پر حملے کی مذمت کی گئی۔" یوکرین روس جنگ میں روسی صدر تو خونی مجرم ہوگئے؟ کیا اسی میڈیا نے امریکی صدر بش یا  ٹونی بلئر کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے کہ انہوں نے عراق میں جو کچھ کیا، اس قتل عام کے یہ لوگ خونی مجرم ہیں۔؟ انہیں چھوڑیں، آج اسرائیلی وزیراعظم کے انسانیت دشمن اقدمات کو ہی ایسا کہہ دیں۔؟

انڈین وزیر خارجہ سے ڈیوس میں ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ جب آپ روس سے تیل خرید رہے تھے، اس پیسے سے روس بم بنا رہا ہے، جو یوکرینی بچوں کو قتل کر رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا تھا، ہاں ہمارے تیل کے پیسوں سے ہی روس بم خرید رہا ہے؟؟؟ کیا وہ یورپی ممالک کی گیس کی ادائیگیوں سے ایسا نہیں کر رہا ہے۔؟ جب یورپ کی روس سے گیس خریدنے کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ تو یورپ کے لیے بہت ضروری ہے۔ "شیخ حسینہ کا دورہِ چین: بنگلہ دیش میں ترقیاتی منصوبوں کے پیچھے چین کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ چین بنگلہ دیش میں ترقیاتی منصوبوں میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے اور بیجنگ کے وہاں مفادات کیا ہیں۔؟"

اس سرخی میں بھی بنگلہ دیش میں چینی سرمایہ کاری پر سوال اٹھا کر اور ایک سازشی تھیوری گھڑ کر چین کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا اسی میڈیا نے دنیا میں امریکی اور یورپی سرمایہ کاری کے بارے میں ایسے ہی شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے؟ جب یورپ اور امریکہ ایسا کریں تو وہ دو ممالک کے تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش  ہے، جب چین ایسا کرے تو پس پردہ کھیل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دو سرخیاں ملاحظہ ہوں: "وہ یورپی ملک جس نے اپنے منصوبوں کے لیے چینی سرمایہ کاری حاصل کی اور اب اسے "بیجنگ کی کالونی" بننے کا ڈر ہے۔ مشہور لبرل آن لائن مالیاتی اخبار پورٹ فولیو نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ایم ٹی آئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2023ء کے ایک سال دوران ہنگری میں تقریباً اتنی ہی چینی سرمایہ کاری کی گئی جتنی "دیگر تمام یورپی ممالک نے مشترکہ طور پر" کی۔"

"چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ: چین کے وہ قرضے جنھوں نے مشرقی یورپ کے بلقان ممالک تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں میں چین خطہ بلقان میں ایک اہم کردار بن کر ابھرا ہے۔ بلقان کا خطہ تاریخی طور پر یورپ اور امریکہ کے زیرِ اثر رہا ہے۔ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ چین اور دنیا کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ دیگر عالمی معیشتوں میں پروپیگنڈا کو فروغ دیا ہے اور کئی یونیورسٹیوں میں آزادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ چینی حکومت اسے استعمال کرتے ہوئے طلبہ کی جاسوسی کرتی ہے۔"

چینی قرضوں سے ہنگری چینی کالونی بننے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ کیا ایسا ہی شوشہ کبھی امریکہ یا برطانیہ کے مقروض ممالک کے لیے بھی چھوڑا گیا ہے کہ وہ امریکی یا برطانوی کالونی بن رہے ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اب ایک عام ہنگری والے کے لیے یہ بہت حساس مسئلہ کہ ان کا ملک چائنہ کی کالونی بن رہا ہے۔ بلقان کے ممالک میں بھی ایسے ہی خدشات بنائے گئے ہیں۔ چین کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ جو کہ ایک تعلیمی پروگرام ہے، اس کے خلاف بھی یہ بات کر دی گئی کہ یہ جاسوسی کے اڈے کے طورپر کام کرتے ہیں۔

کیا دنیا بھر میں قائم یورپی اور مریکی تعلیمی اداروں کے بارے میں ایسی ہی خبر دی جا سکتی ہے؟ وہاں تعلیمی تعلقات اور ایجوکیشنل ڈپلومیسی اور جانے کیا کیا اعلیٰ نام یاد آجاتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پروپیگنڈا بڑے پیمانے پر ہوتا ہے، عام آدمی کے ذہن کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر اصل ظلم و جبر سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ اپنے بیانیے کو طاقت کے زور پر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ یورپی میڈیا کا یہ منفی کردار لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کر رہا ہے۔ اسے نفرت کی بجائے امن پھیلانے والا ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1147142
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش