0
Tuesday 9 Jul 2024 21:26

قیام امام حسینؑ کے مقاصد اور آج کی کربلا(1)

قیام امام حسینؑ کے مقاصد اور آج کی کربلا(1)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کتب تاریخ سے یہ بات مسلم ہے کہ ماہ ذی الحج کی طرح ماہِ محرم الحرام قدیم عرب یعنی زمانہء جاہلیت میں بھی تقدس و احترام سے دیکھا جانے والا مہینہ تھا۔ دین اسلام نے بھی اس روش کو برقرار رکھا اور دستور عرب کے مطابق اس ماہ میں جنگ و جدل اور لڑائیوں سے دوری اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ محرم الحرام 61 ہجری عاشور کے روز میدان کربلا میں خانوادۂ ختم الرسلؐ اور اصحاب محترم ؓ کے ساتھ ظلم و ستم کے تاریخی و منفرد واقعہ کے ذمہ داروں اور مرتکبوں نے جہاں مقدس ہستیوں کو قتل کرکے اپنے لئے جہنم کا سامان کیا، وہاں اس ماہ کی حرمت کو بھی پامال کیا۔ جو لوگ جگر گوشہ رسولؐ و بتولؑ اور خانوادہ محترم ختم الرسلؐ کو توہین آمیز انداز میں شہید اور اسیر کرسکتے تھے، ان کے سامنے ایک ماہِ مقدس کے احترام کی کیا ارزش و اہمیت ہوسکتی تھی۔ ان لوگوں نے جو کچھ کیا، وہ تاریخ کبھی بھلا نہی سکے گی۔اسے فراموش کرنا ممکنات میں سے نہیں ہے۔

61 ہجری کے عاشور کے بعد دنیا دو فرقوں میں منقسم ہوگئی، ابوسفیان کے پوتے، اُمیہ کے لاڈلے یزید (لعین) ابن معاویہ کے اقتدار اور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کا ساتھ دینے والے (چاہے یہ ساتھ اس زمانے میں دیا گیا یا آج ان کا دفاع کرکے دیا جاتا ہے) یزیدی کہلائے جانے لگے اور فرزندِ رسولؐ، جگر گوشۂ بتولؑ، حضرت ابو طالبؑ کے پوتے حضرت حسین ابن علی ؑ کے ساتھ شہادتوں کو گلے لگانے والے اور آپؑ کی آواز پر لبیک کہنے والے حسینی کہلائے۔ یزیدیوں نے 10 محرم الحرام کے دن اپنے وقت کے مقدس ترین و محترم ترین افراد کو شہید کرکے ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سر قلم کئے، ان کے خانوادۂ محترم کے مال و اسباب کو لوٹ کر خیام کو آگ لگائی اور عصمت و رسالت کی آغوش میں پلنے والی بیبیوں کو برہنہ سَر اسیر کرکے بازاروں اور درباروں میں پھرایا، ان کا تمسخر اڑایا، انہیں اذیت دی، ان کی توہین کی اور ان کی شہادتوں، اسارتوں اور بظاہر مارے جانے کو شکست سے تعبیر کرتے ہوئے جشن فتح منایا۔

مگر اس جشن فتح کو تاریخ نے شکست سے تعبیر کیا، وقت نے جو تحریر اس حوالے سے لکھی، وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے اور یہ اس واقعہ میں موجود سبق کو حاصل کرنے کیلئے تاریخ کے اوراق میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ ایسی لازوال و بے مثال قربانی ہے، جس پر اسلام کو نہ صرف فخر ہے بلکہ حریت و آزادی خواہ انسانوں بے شک ان کا تعلق کسی بھی مکتب و فرقہ و مذہب سے ہو، اپنے لئے کئی ایک راہنماء دروس پاتے ہیں۔ حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی بے مثال و عظیم ہستی اور کربلا سے اٹھنے والی لازوال تحریک کے بارے میں انسان جیسے جیسے غور و فکر کرتا ہے تو تحقیق و مطالعہ کا میدان، سوچ و فکر کا دائرہ اسی قدر جامع اور وسیع و عریض نظر آتا ہے۔ اس عظیم واقعے کے بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جن پر ہمیں غور کرنا چاہیئے اور اس پر بات کرنی چاہیئے۔

اگر باریک بینی سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید یہ کہا جا سکے کہ انسانون کیلئے امام حسین علیہ السلام کی چند مہینوں پر محیط تحریک سے، جس کی شروعات مدینے سے مکہ کی سمت سفر سے ہوئی اور اختتام کربلا میں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا، ہر عمر اور طبقہ کیلئے ہزاروں دروس حاصل کرنے کے در وا ہوتے ہیں۔ اگر ہم امام حسین علیہ السلام کے کردار و کاموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس سے ہزاروں باب اور سینکڑوں عناوین نکل سکتے ہیں، جن میں سے ہر عنوان اور ہر باب ایک قوم، ایک تاریخ اور ایک ملک، ایک سلطنت، ایک ریاست، ایک معاشرہ کے لئے، نظام چلانے اور خدا کی قربت کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ کسی محقق نے یہ کہا کہ حسین ابن علی مقدس ہستیوں کے درمیان سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ انبیاء، اولیاء، آئمہ شہداء اور صالحین پر نظر ڈالیں! اگر وہ لوگ چاند و ستاروں کی مانند ہیں تو امام حسینؑ ان کے بیچ سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں سب سے اہم و اصلی سبق یہ ہے کہ اس بات پر غور و فکر کیا جائے کہ امام حسین ؑنے قیام کیوں کیا؟ آپ کے قیام کا مقصد کیا تھا۔؟ آپ کے قیام کے مقاصد کی روشنی میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور ہم آج تقریباً چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی جب امام حسین ؑ سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں تو اس تعلق کے باعث موجودہ دور کے حالات میں ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔؟ ہم کیا کردار ادا کریں تو حسینی کہلانے کے مستحق ہوں گے؟ ہمیں حسینی راستہ اختیار کرنا چاہیئے یا دوسرا راستہ جو نام نہاد خلافت و حکومت کا راستہ؟ کیا ایسی حکومتیں آج بھی موجود نہیں ہیں؟ کیا ہم ایسی حکومتوں کو اپنے معاشرں و ممالک میں دیکھ سکتے ہیں، اگر دیکھ سکتے ہیں تو ہمارا کردار کیا ہے۔؟ اپنے کردار سے مطمئن ہیں۔؟

حضرت امام حسینؑ نے 60 اور 61 ہجری میں اسلامی معاشرے میں موجود عزت و غیرت کے فقدان، شعائر اسلامی کی عدم پاسداری، مجموعی بے حسی، دین محمد کے برخلاف ملوکیت کی بدعت کے آغاز اور دیگر معاشرتی برائیوں اور ان برائیوں کی وجوہات کا مکمل ادراک کرتے ہوئے نمائندہ الہیٰ ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کا تعین کیا۔ رسول اسلامؐ کے وصال مبارک کے بعد سقیفۂ بنی ساعدہ سے اسلام کے سیاسی اور اجتماعی حاکمیت کے تصور پر جو ضرب لگائی گئی تھی، اس کی تاثیر 61 ہجری میں دین کی جڑوں کو مکمل تباہ کرنے تک پہنچ چکی تھی۔ دین کے فروعات پر عمل ہو رہا تھا مگر ان کی روح ختم ہوچکی تھی۔ جس طرح روح کے بغیر مردہ جسم کوئی معنی اور قدروقیمت نہیں رکھتا، اسی پر تمام عبادات کی روح وہ یاد الہیٰ ہے، جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو بارگاہ الہیٰ میں ہر وقت حاضر سمجھتا ہے اور اپنی ذمہ داری اس طرح ادا کرتا ہے کہ دنیاوی و مادی رکاوٹیں یا غیر اللہ اس کی روحانی تکامل و ترقی میں حائل نہیں ہوتیں۔

61 ہجری میں نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ خلیفۂ رسول کی حیثیت سے نامزد شخص یعنی یزید کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والا، شراب خور اور پاکیزہ انسانوں اور بے گناہ لوگوں کا قاتل تھا۔ ملت اسلامیہ اور اس کے خواص یہ سب حقائق جاننے کے باوجود بوجوہ خاموش یا حتیٰ اس کے ہمنوا تھے۔ یزید پلید نے جو اشعار کہے تھے، وہ تو آج بھی کتب تاریخ میں موجود ہیں، جن میں اس نے اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی اور نہ ہی کوئی نبی آیا بلکہ یہ بنی ہاشم کا (نعوذ باللہ) ایک ڈھونگ تھا۔ سوال یہ ہے کہ دین و وحی (یعنی قرآن پاک) کا اعلانیہ منکر اگر عالم اسلام کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہو جاتا ہے تو کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں دین کے وہ ظواہر اور مردہ فروعات و عقائد بھی نہیں رہیں گے،۔

کیا اسی مسند پر بیٹھنے والے حکمران نے اسلام کے نام پر خطبۂ جمعہ میں اس مرد مومن پر سب و شتم کا سلسلہ جاری نہ کیا تھا کہ جسے رسول پاک ؐ نے دنیا و آخرت میں اپنا بھائی، کلِّ ایمان، شہر علم کا دروازہ، اپنا وصی اور ہر کلمہ گو کا مولا قرار دیا تھا۔ جس کے بارے میں حدیث قدسی سن رکھی تھی کہ اگر لوگ علی کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خدا جہنم کو پیدا ہی نہیں کرتا۔ جسے حضرت ہارونؑ سے تشبیہ دی تھی،؟ لہٰذا یہ بات ہرگز قابل فہم نہیں ہے کہ حلال و حرام محمدی کی دھجیاں بکھیر دینے والا شخص اگر حکومت اسلام کی ذمہ داری سنبھال لیتا اور اسے کسی بھرپور مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو دین اسلام کا کیا حال ہوتا۔؟ دوسرے یہ کہ گذشتہ 50 برسوں میں بتدریج انحراف کا شکار ہوتے ہوئے بے حسی و بے غیرتی و لاتعلقی کی گہرائیوں میں غوطہ زن مسلمانوں کو بھی اس گہرے خواب غفلت سے جگانے کیلئے ایک بھرپور اور گرجدار صدا کی ضرورت تھی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مہیب اور خوف سے لبریز ماحول میں یہ صدائے احتجاج کون بلند کرے کہ جس کی روح اس قدر یاد الہیٰ سے سرشار ہو کہ کوئی بھی دنیاوی خوف اور ظلم اسے بڑی سے بڑی قربانی سے نہ روک سکے، جو اس گرجدار صدا کو پیدا کرنے کیلئے ضروری ہو۔؟ یاد رہے کہ اس وقت صحابہ کی بڑہ تعداد موجود تھی اور موجودین میں کافی بڑے نام تھے، مگر امیر شام کی ملوکیت کا سیاہ باب مسلط ہونے کے بعد سب کو اپنے دام میں لا چکا تھا۔ کسی کو دولت کے توسط سے، کسی کو ڈرا دھمکا کر تو کسی کو منصب و مقام کے لاچ میں۔ پھر کون اس پلید کو روکنے کیلئے آگے بڑھتا، جب جید صحابہ اور ان کی اولادیں دست بیعت پر اپنا ہاتھ رکھ چکے ہوں تو بنو ہاشم کا خون، عبد المطلب کا وارث، محمد ؐخاتم الانبیاء کا حقیقی وارث، امیر المومنین علی ابن ابی طالب و سیدہ فاطمہ زہرا (س) کا دلبند امام حسین ؑ کا وجود بابرکات ہی تھا، جو اس مایوسی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی و امید کی واحد کرن تھا۔

شاید اسی گتھی کو سلجھانے کیلئے رسول اللہؐ نے یہ فرما دیا تھا کہ "حسین منی و انا من الحسین"، "حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔" حسینؑ، رسول پاکؐ کے نواسے ہیں، یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہ تھی، کیونکہ یہ بات سب جانتے تھے۔ اس حدیث مبارکہ کے ضمن میں ہمارے محراب و منبر سے زیادہ تر حدیث کے دوسرے حصے یعنی میں حسینؑ سے ہوں، کی شرح کی جاتی ہے جبکہ بعید نہیں ہے کہ بذات خود پہلا حصہ یعنی حسین ؑ منی یعنی امام حسین ؑ کے اس اعلیٰ انسانی و روحانی بلکہ ملکوتی مقام کی طرف اشارہ ہے، جسے صرف اور صرف پیرویٔ رسول پاکؐ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ قرب الہیٰ کہ جس کے حصول کا ذریعہ مقام رسالت عظمیٰ کی حامل شخصیت ہی ہوسکتی ہے اور حدیث مبارکہ کا دوسرا حصہ تو کل انسانیت پر یہ واضح کر دینے کیلئے کافی ہے کہ دین اسلام اور تعلیمات رسول اسلامؐ کی حیات اور بقاء حسینؑ کی وجہ سے ہی ممکن ہوگی۔

پس ظلم و جہالت کی گہری تاریکیوں کو نور الہیٰ سے پارہ پارہ کرنے کیلئے حماسہ و شجاعت اور غیرت الہیٰ کی ضرورت تھی۔ لہٰذا امام حسین بن علی ؑ نے یہ کردار ادا کرنے کی ٹھانی اور اس انداز میں کہ تا ابد حسینیت، یزیدیت کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں ایک چیلنج بن گئی کہ جسے ختم کرنا یزیدیت کے بس میں نہ رہا۔ پس امام حسین ؑ نے دین اسلام، جو حقیقی یاد و ذکر الہیٰ کا ضامن ہے، اس کا جب اس طرح دفاع کیا تو رب العزت نے بھی ذکرِ حسینؑ کو جاری و ساری رکھنے کا اہتمام فرما دیا۔ رسول پاکؐ نے بھی یہ فرما دیا کہ "قتل حسین سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگی کہ جو کبھی ٹھنڈی نہ ہوگی۔" جو لوگ آج حسینیت کا راستہ روکنے اور یزیدیت کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں، انہیں تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ حسینیت تا قیام قیامت کیلئے زندہ ہے، یہ تاابد اپنے پیغام کی روشنی سے یزید اور اس کی نسل کو کسی نہ کسی رنگ اور کسی نہ کسی ڈھنگ میں للکارتی رہیگی۔ آج کی کربلا سات اکتوبر 23ء کو ایک نئے رنگ و ڈھنگ میں ہم دیکھ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1146769
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش