1
Tuesday 9 Jul 2024 20:56

کویت میں عزاداری پر پابندی کیوں؟

کویت میں عزاداری پر پابندی کیوں؟
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

ماہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر میں ہر قوم اور نسل کے مسلمان اپنے اپنے انداز کے ساتھ شہداء کا سوگ مناتے ہیں۔ اس دوران  21ویں صدی میں اب بھی کچھ ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں سوگواروں کو مختلف طریقوں اور جھوٹے حیلوں بہانوں سے روکا جاتا ہے، ان کے اجتماعات اور ماتمی جلوسوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ کویت ان عرب ممالک میں سے ایک ہے، جس نے حال ہی میں شیعہ مسلمانوں کے لیے محرم کے سوگ کی تقریبات کے انعقاد کے حوالے سے مختلف پابندیاں اور نئے قوانین نافذ کیے ہیں۔ کویت کی وزارت داخلہ نے اس ہفتے کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ "امام بارگاہ کے مالکان" کو محرم اور صفر کے دنوں میں حسینی پرچم بلند کرنے کا حق نہیں ہے اور عوامی مقامات پر ماتمی جلوسوں کے انعقاد کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

وزارت کا بیان، جس کا اعلان پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ کے ذریعے  کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ "حسینیہ یا امام بارگاہ کے مالکان کو ہر کسی کی حفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے ریگولیٹری قوانین اور سکیورٹی فورسز کے احکامات پر عمل کرنا چاہیئے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امام بارگاہ پر کسی قسم کے نعرے کے بغیر صرف ایک جھنڈا لگانے کی اجازت ہوگی۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "کسی بھی وجہ سے امام بارگاہ کی دیوار سے باہر کسی بھی طرح کے خیمے اور موکب لگانے کی اجازت نہیں ہوگی"، وزارت داخلہ نے اس حکم میں نشاندہی کی ہے کہ "کسی بھی قسم کے ماتمی جلوس کی اجازت نہیں ہوگی۔" وزارت داخلہ نے دھمکی دی ہے کہ "جو بھی ریگولیٹری قوانین پر عمل نہیں کرے گا، اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔"

اس کے علاوہ، نئی ہدایات کے مطابق، سکیورٹی فورسز کو ٹریفک کے ضوابط کو منظم کرنے اور سکیورٹی کو برقرار رکھنے کے بہانے امام بارگاہ کے احاطے کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔ کویت کی وزارت داخلہ کے شعبہ تعلقات عامہ اور میڈیا کے جنرل ڈپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پابندی والے فیصلے وزارت داخلہ اور امام بارگاہ کے متولیوں کے درمیان رابطہ کاری اور اجلاس کی ہدایات اور سفارشات کی بنیاد پر کیے گئے۔ اس حکم کے جاری ہوتے ہی کویت کی سکیورٹی فورسز اور میونسپلٹی نے جھنڈوں، پرچموں اور محرم الحرام کی دیگر نشانیوں کو گرانا اور گلی کوچوں سے ہٹانا شروع کر دیا، جس پر کویتی شہریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔

کویتی شیعوں کی طرف سے غم و غصے کا اظہار
کویت کی تقریباً 4.3 ملین آبادی کا 40 فیصد (2 ملین سے زیادہ افراد) شیعہ ہیں، لیکن وزارت داخلہ کے نئے قوانین کے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ فیصلے ملک کی بڑی شیعہ برادری کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت کے خوف کی وجہ سے ملکی اخبارات اور رسائل ظلم و جبر کے فرقہ وارانہ فیصلوں کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرتے، البتہ کویتی شہری فیس بک جیسے سوشل نیٹ ورکس پر اپنے احتجاج کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل نیٹ ورکس پر اس فیصلے پر کویت کے غصے کو ظاہر کرنے والے کلپس گردش کر رہے تھے۔اس کلپ میں ایک شہری اس فیصلے کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑک پر آگیا اور نعرہ لگا رہا ہے: ’’یہ میرا گھر ہے‘‘، حسین میرے جد ہیں۔

پلیٹ فارم X پر شائع ہونے والے ایک اور کلپ میں، ایک شہری کویت کے متعلقہ حکام کی طرف سے حسینی جلوسوں اور عاشورا کی مراسم پر پابندیوں کے بارے میں بات کر رہا ہے یہ کویتی شہری کہہ رہا ہے "ہر سال، ہم میونسپلٹی، فائر بریگیڈ اور تمام حکام سے درخواست کرتے ہیں اور محرم کے مہینے میں حسینی جلوسوں کی اجازت حاصل کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "اس سال، ہم میونسپلٹی سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ سے، ہم فائر ڈیپارٹمنٹ سے پوچھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ سے، ہم نے سب سے پوچھا، وہ کہتے ہیں کہ وزیر نے حسینی جلوس نکالنے پر پابندی اور موکب ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ کویت کی سابقہ ​​حکومتوں کے وزراء اکثر بردباری اور جلوسوں کی انتظامیہ سے تعاون کرتے تھے اور حفاظت، سکیورٹی اور آگ بجھانے کے لیے خصوصی شرائط فراہم کرتے تھے۔ وہ تو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے ثواب مین شریک بھی ہوتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: "اب بلدیہ اور پولیس غیر اعلانیہ آکر موکبوں کو تباہ کر رہی ہے۔" ایک اور معروف بلاگر الحاشم بن جمال نے حسینی ماتمی پروگراموں کے خلاف وزارت داخلہ کے نئے احکامات کو مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے: "ہم نے اپنے مرضی سے اس راستے کا انتخاب کیا اور کرتے رہیں گے، چاہے اس کے لیے ہماری جان بھی چلی جائے۔ ہم کو اس راستے میں جو جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی، ادا کریں گے۔ ہماری زندگی، طاقت اور عزم نیز ہمارا نصب العین، اے حسین (ع) ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہے گا۔" انہوں نے لکھا ہے کہ "تمام اشارے اور موجودہ واقعات اس کے سوا کچھ نہیں کہ کویت سیکولرازم کی طرف بڑھ رہا ہے۔"

کبیر کویتی کے اس بیان کے مطابق: "سڑکوں میں مسلمان علماء کے ناموں کو ہٹا کر ان کی جگہ نمبر لگانا، اسکولوں میں صحابہ کرام کے ناموں کو عام افراد کے ناموں سے تبدیل کرنا، بینرز اور پرچم لگانے سے روکنا، امام بارگاہوں میں ماتمی خیموں اور موکبوں کی اجازت نہ دینا اور مساجد کے دروازوں سے نمازیوں کا معائنہ کرنا وغیرہ سب اس بات کی علامات ہیں کہ کویت کو کسی اور جانب لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حماد نامی ایک اور شہری نے اپنے فیس بک پلیٹ فارم پر لکھا: کویت میں شیعوں اور حسینی جلوسوں کے خلاف محاذ آرائی اور انتشار پیدا کرنے کے سلسلے میں رونما ہونے والے واقعات کو لے کر ہمیں کویت کے شیعوں کی موجودہ حالت سے آگاہ رہنا ہوگا۔"

شیعہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کے امتیازی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا: "کویتی شیعہ (اس ملک کے) حقیقی شہری ہیں اور (اس ملک میں) کویت کے قیام کے آغاز سے ہی مقیم ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ (اس ملک میں) مقیم ہیں۔ کویت کے وجود کے ساتھ یہ لوگ یہاں آئے ہیں اور ان کی عمرین کویت جتنی ہیں اور وہ ان کے ساتھ آئے تھے۔ جو لوگ اس جغرافیائی علاقے میں رہتے ہیں، ان میں سے کچھ جزیرہ نما عرب سے آئے تھے، خاص طور پر الاحساء، حجاز کے علاقے سے، جہاں سے بہت سے شیعہ قبائل اور خاندان کویت آئے تھے۔ ان میں سے کچھ عراق اور ایران سے آئے تھے، ان میں بڑی تعداد شیعہ قبیلوں پر مشتمل تھی۔ ابو دجانہ کے نام سے ایک اور بلاگر نے کویت کے مرحوم امیر شیخ صباح الاحمد کی کو یاد کرتے ہوئے لکھا: "مجھے نہیں معلوم کہ کویت کے موجودہ امیر کے ذہن میں کیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا: اے امام حسین (ع) آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ دنیا کے سب سے طاقتور ظالم بھی حسینیوں کو غم کی رسومات ادا کرنے سے نہیں روک سکے، یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ کویت کے شیعہ مسلمانو، اگر یہ آپ کو علم اٹھانے سے روکیں تو اپنے گھروں کی دیواروں کو سیاہ کر دیں۔

سلفیوں کی تفرقہ انگیز سرگرمیوں کے خلاف شیعہ قومی اسمبلی کا احتجاج
بہت سے مبصرین کویت کے نئے حکومتی حکام کی طرف سے حسینی سوگ کو دبانے کی اس خواہش کو سلفی اور اخوان کے گروہوں کی تفرقہ انگیز سرگرمیوں کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں شیعوں کے اتحاد نے ایک بیان جاری کرکے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین نہ کرنے کے بہانے حسینیوں اور نجی مجالس کی حکومتی نگرانی کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ یاد رہے کہ جمعیت ثوابۃ الامہ کی جانب سے عزاداری پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس بیان میں جناب محمد باقر المہری نے شیعہ مذہبی حکام کے نمائندے کے طور پر جمعیت ثوابۃ الامہ (مسلم اسکالرز یونین) سے کہا کہ وہ اس انجمن کے سربراہ شیخ یوسف القرضاوی کو فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے کی وجہ سے اپنی تنظیم کی سربراہی سے ہٹا دیں۔ شیخ یوسف القرضاوی نے حال ہی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ایران کے خلاف سخت تنقید کی تھی۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے جناب محمد باقر المہری نے مزید کہا کہ "القرضاوی مسلمانوں کو منتشر کرنے اور فرقوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انہیں اکٹھا نہیں ہونے دیتا۔"

کویت میں عزاداری کی ایک طویل تاریخ
کویت میں ابا عبداللہ الحسین (ع) کے عزاداری کی تقریبات کے انعقاد کی قدیم تاریخ پر مختلف تحقیقیں کی گئی ہیں۔ اس وقت غیر منصفانہ موازنہ کرنا اور کویتی شیعوں کی مذہبی سرگرمیوں کو غیر ملکی مسائل سے جوڑنا کسی بھی طرح درست اقدام نہیں۔ کویت میں ابا عبداللہ الحسین (ع) کی عزاداری کو کسی بھی طرح پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ مثال کے طور پر، اسلامی محقق شیخ رعد حبیب نے کویت میں حسینیہ یعنی امام بارگاہ کے قیام کو ایک بھرپور تاریخی گہرائی اور وراثت کا حامل سمجھا، جس میں 1815ء میں پہلے حسینیہ کے قیام کے بعد سے الصباح کے حکمران خاندان نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اسلامی محقق کے مطابق شیخ جابر عبداللہ الصباح، جو جابر العیش کے نام سے مشہور تھے، وہ اور جناب علی الموسوی الخزاب، اس حسینیہ متولی تھے اور یہ امام بارگاہ مشہور گاؤں البحرنا میں تھا، جو آج تک جاری ہے اور وہ حسینیہ اب "حسینیہ عمران" کے نام سے مشہور ہے۔

اس کے بعد 1905ء میں فریج القبلہ میں حاج معروفی حسینیہ کا قیام عمل میں آیا اور کویت کا ایک اور قدیم ترین حسینیہ آج بھی الکویت شہر میں ثلاثة بيوت نامی چوک میں موجود ہے۔ اس کے بعد فریج الہدہ میں حسینیہ الزینبیہ، جس کا قیام 1914ء سے شروع ہوا اور فاریج الفجر میں حسینیہ الخزالیہ کو 1918ء میں شیخ مبارک الصباح کی حکومت کے اختتام پر حکومت کی مدد سے کھولا گیا اور شیخ عبداللہ السلم اور اسی سال حسینیہ جعفریہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ، دوسرے پرانے حسینیوں میں جو الکویت شہر میں موجود تھے، حسینیه بهشت للبلوش، حسینیه حاج علی الشمالی جنب الدروازه، حسینیه التراکمه، حسینیه السید حسین العضب، حسینیه حاج حسین ششتر و حسینیه ابن حیدر در المطبه و حسینیه الشواف حسینیه العباسیه در فریج الحساویه، حسینیه الحاج علی الاربش، حسینیه علی الخبار در، حسینیه سید علی، حسینیه غانم المرزوق، حسینیه بوعلیان و حسینیه قنبر البلوشی کا نام لیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1146766
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش