1
Tuesday 4 Jun 2024 15:11

مسئلہ فلسطین پر امریکی سرپرستی کا خاتمہ

مسئلہ فلسطین پر امریکی سرپرستی کا خاتمہ
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر
 
وائٹ ہاوس نے بدھ بروز 22 مئی 2024ء کے دن اسرائیل کی ہمہ جہت حمایت پر مبنی بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا: "صدر بائیڈن سمجھتے ہیں فلسطینی ریاست، یکطرفہ طور پر تسلیم کئے جانے کے ذریعے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے تشکیل پائے۔" وائٹ ہاوس نے اپنے بیانئے میں مزید کہا کہ امریکہ کی نظر میں ایک فلسطینی ریاست، تنازعہ کا شکار فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے تشکیل پانی چاہئے۔ اسی طرح امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: "جو بائیڈن دو ریاستی راہ حل کے شدید حامی ہیں لیکن فلسطینی ریاست یکطرفہ طور پر تسلیم کئے جانے کے ذریعے نہیں بلکہ فریقین میں براہ مذاکرات کے ذریعے تشکیل پانی چاہئے۔" وائٹ ہاوس کا یہ بیانیہ اس وقت سامنے آیا جب تین یورپی ممالک، اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے خودمختار فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
 
ان یورپی ممالک کے اس اقدام کے ردعمل میں وائٹ ہاوس کا عجولانہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنے یورپی اتحادیوں کی جانب سے خودمختار فلسطینی ریاست سے متعلق امریکہ کے سرکاری موقف سے مختلف موقف اپنانے پر ناخوش ہے۔ امریکہ بارہا دعوی کر چکا ہے کہ فلسطینی ریاست تنازعہ کا شکار فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے تشکیل ہونا چاہئے۔ دوسرے الفاظ میں بائیڈن حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان مذاکرے کے ذریعے عمل میں آئے۔ لیکن دوسری طرف امریکی حکمران جان بوجھ کر اس اہم حقیقت سے چشم پوشی اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کم از کم جنوری 2023ء میں نیتن یاہو کی انتہاپسند دائیں بازو کی کابینہ تشکیل پانے کے بعد اسرائیلی حکام نے خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے انکار کر دیا ہے۔
 
نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل حکمران، خاص طور پر داخلہ سکیورٹی کے وزیر اتمار بن گویر نے واضح طور پر فلسطینیوں کو کچل دینے کی بات کی ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو کابینہ کے گذشتہ ڈیڑھ سال اقتدار کے دوران خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کیلئے نہ صرف فلسطین اتھارٹی سے مذاکرات انجام پانے کیلئے حتی ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا بلکہ فروری 2024ء میں اسرائیلی کابینہ میں ایک نیا بل منظور کیا گیا جس میں خودمختار فلسطینی ریاست تسلیم نہ کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اس دوران غاصب صیہونی رژیم نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف فوجی کاروائیاں شدید کر دی ہیں اور گذشتہ آٹھ ماہ سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ صیہونی حکمران بدستور غزہ جنگ جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں جس میں اب تک 36 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور لاکھوں فلسطینی زخمی ہو گئے ہیں۔
 
اب اس بات کے پیش نظر کہ دنیا کے 143 ممالک خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، اسپین، ناروے اور آئرلینڈ جیسے کچھ یورپی ممالک بھی تل ابیب کی جانب سے دو ریاستی راہ حل کو آگے بڑھانے کیلئے کسی قسم کا اقدام انجام نہ پانے کے پیش نظر خود اقدام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور خودمختاری فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ تین یورپی ممالک کے اس اقدام کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ مائیکل مارٹن نے ایک انٹرویو میں یورپی ممالک کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور خودمختار فلسطینی ریاست کی حمایت میں سنجیدگی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا: "فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایک اہم اقدام تھا، خاص طور پر اس وقت جب نیتن یاہو کی کابینہ دو ریاستی راہ حل کی نابودی کی جانب گامزن ہے۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمارا یہ اقدام فلسطینی قوم کیلئے ایک پیغام ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت ہے۔
 
یورپی ممالک نے خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام جیسے اہم مسئلے میں اپنی راہیں امریکہ سے جدا کر لی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت، وہ بھی خاص طور پر براعظم یورپ میں، بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے مقابلے میں اور فلسطینی قوم کی حمایت میں یہ صف بندی یورپی ممالک میں بہت اہم اثرات کا باعث بنے گی۔ ان اہم ترین اثرات میں سے ایک، اوسلو معاہدے کے بعد سے اب تک اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان امن مذاکرات پر امریکہ کی ٹھیکے داری اور سرپرستی کے خاتمے کا آغاز ہے۔ اسرائیلی حکام اس حقیقت کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک کی نظر میں غاصب صیہونی رژیم منفور ہو چکی ہے اور عالمی سطح پر اس کی گوشہ نشینی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ حتی امریکی سینیٹ کے 19 ڈیموکریٹک اراکین نے بھی مارچ 2024ء میں جو بائیڈن کو ایک خط لکھا اور اس میں خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔
 
امریکہ، جرج ڈبلیو بش کے دوران صدارت سے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ایک "روڈ میپ" پیش کرتا آیا ہے جو دو، یہودی اور فلسطینی، خودمختار ریاستوں کی تشکیل پر مبنی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر امریکی صدر نے، ریپبلکن پارٹی یا ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہونے کے ناطے اس بارے میں مختلف پالیسی اپنائی ہے۔ ڈیموکریٹک امریکی صدر براک اوباما دو ریاستی راہ حل کا حامی تھا جبکہ ریپبلکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں گذشتہ تمام حدیں پار کر دیں اور متنازعہ علاقوں کو سرکاری سطح پر اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ریاستی راہ حل کو کوئی اہمیت نہیں دی اور فلسطینیوں پر شدید دباو ڈالنے کے ساتھ ساتھ تل ابیب کو بھرپور مراعات سے نوازتا رہا۔ جو بائیڈن حکومت بھی اب تک بارہا فوج سے محروم فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کر چکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1139610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش