0
Friday 18 Oct 2024 21:07

ہم حکومت کی آئینی ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے، اختر مینگل

ہم حکومت کی آئینی ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے، اختر مینگل
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ انکی جماعت آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنے گی۔ اگر ان کے کسی سینیٹر نے ووٹ دیا تو وہ دباؤ کے تحت ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ آئینی ترامیم کی بات کی جارہی ہے، اس آئینی ترامیم کو لانے والے کون ہیں۔ حکومت اپوزیشن اس کے اتحادی ہیں یا عسکری قوتیں ہیں۔ کیونکہ حکومت آئینی ترامیم لانا چاہتی ہے تو کیا حکومت کا وہ مسودہ آپ نے دیکھا ہے۔ ہمیں پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کا ڈرافٹ مل چکا ہے، لیکن حکومت کا ڈرافٹ نہیں ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ ترامیم حکومت کی طرف سے آتی ہے۔ حکومت کا ڈرافٹ کئی نظر نہیں آرہا ہے۔ حکومتی آئینی ترامیم کیا جی ایچ کیو یا آبپارہ میں پرنٹ ہو رہا ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں علم نہیں ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینیٹر نسیمہ احسان کے بیٹے کو اٹھایا گیا تھا۔ سینیٹر قاسم رونجھو گردوں کے مریض ہیں، ان کو ڈائیلاسس سے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان کا حال احوال نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ خرم دستگیر یہ بات بتا سکیں گے کہ پچھلے ادوار میں ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے صرف عمران خان تھے یا عسکری قوتیں بھی تھیں۔ اس وقت ان کے نام لیتے تھے اور کہتے تھے ووٹ کو عزت دو، عزت لوٹی کس نے تھی۔ وہ کوئی پولیٹکل پارٹی نہیں تھی۔ آج میں احترام کے ساتھ خرم دستگیر سے کہوں گا کہ کل جو الزامات آپ لگا رہے تھے، آپ کے جلسے میں بھی آتے تھے۔ جنرل فیض کسی دوکان کا چوکیدار نہیں تھا، بلکہ آئی ایس آئی کا ڈی جی تھا۔ اس پر آپ لوگوں نے الزام لگائے تھے۔ جنرل باجوہ پر جو الزام لگا رہے تھے۔ کیا باجوہ کسی بس کا کنڈیکٹر تھا، وہ تو آرمی چیف تھا۔ اس پر آپ الزام لگا رہے تھے۔ آج اچانک نسیمہ احسان کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا ہے۔ جب کسی کے شہر اور بیٹے ان کے قبضے میں ہو شاباش ہے۔ اس خاتون پر جس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اختر مینگل نے کہا کہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادی اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہاں پولیس اور ملٹری سٹیٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی بار میاں اور پیپلز پارٹی نے جو غلطیاں کی ان کو بگتنی پڑی ہے۔ یہ اپنے سے گڑھا کھود رہے ہیں، بلکہ ملک اور ملک کے جمہوری اداروں اور عدلیہ کے لئے ایسے گڑھا کھود رہے ہیں۔ جس سے شاید نہ ملک نکل سکیں۔ بلوچستان میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں، کیا ایک ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔ ہزاروں مسخ شدہ لاشیں گرائی گئی ہے، کیا ان کی کسی نے ایف آئی آر کاٹی ہے۔ کیا وہ لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ کیا سینیٹرز کو یرغمال بنانے پر چیئرمین سینٹ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا۔ آج بھی نسیمہ احسان کی بیٹی اور بیٹے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہاں پر سیٹنگ وزیراعظم کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔ اس کی ایف آئی آر کاٹی نہیں جاتی ہے، تو ہم غریبوں کی ایف آئی آر کہاں سے کاٹی جائے گی۔ میں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا ہے۔ قبول کریں یا نہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے اپنی نمازیں پڑھ لی ہیں، ہماری پارٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم آئینی ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اگر ہمارے سینیٹرز نے ووٹ دیا تو وہ کسی دباو کے تحت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1167227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش