تحریر: سید تنویر حیدر
افسانوی شہرت کا حامل، دنیائے عرب کا نامی گرامی پہلوان، رجزخوانی کرتے ہوئے اپنی حد کو پار کر چکا تھا اور مقابلے کے لیے ہر ایک کو للکار رہا تھا لیکن کسی میں دم نہیں تھا کہ اس کا جواب دے اور اس کے مقابل میدان میں اترے۔ گویا سب کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی میں اس سورما سے جنگ آزمائی کا حوصلہ نہیں تھا۔ کچھ تو اس قوی ہیکل مخلوق کی داستانیں سنا کر حوصلہ مندوں کے بھی حوصلے پست کر رہے تھے۔
اس خوف کی فضا میں کوئی ایک مرد میدان ایسا بھی تھا جو اس سارے منظر کو دیکھ کر پیچ و تاب کھا رہا تھا اور بار بار اذن جنگ آزمائی طلب کر رہا تھا، آخرکار ایک اشارہ پانے پر آگے بڑھا اور اس للکارنے والے کا ایک ہی ضرب سے قصہ تمام کر دیا۔ آج بھی کچھ ایسا ہی منظرنامہ ہے۔ اپنی طاقت کے زعم میں ایک سرکش اپنی حدوں سے آگے گزر چکا ہے اور تمام اہل قبلہ کو مقابلے کے لیے للکار رہا ہے۔ پچاس سے زائد ممالک اس کی رجزخوانی سن رہے ہیں اور اس کی خون آشامی دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے سروں پر بھی گویا پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔
ان میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ سب مل کر بھی اس سگِ دیوانہ کے گلے میں پٹا ڈالیں۔ ان میں سے ہر ایک کے سر پر جو پرندہ سوار ہے وہ خوف کا پرندہ ہے۔ وہ جس شے سے ڈرتے ہیں اس سے کسی کو مفر نہیں۔ البتہ مردانہ صفات سے عاری ان کاغذی پہلوانوں سے ہٹ کر کوئی ایک مرد میداں اور مرد فقیہ ایسا بھی ہے جو خوف کے تمام بت توڑ کر سر میدان خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔ یہ علی کا بیٹا وہ علی ہے جس کے ابرووں کی تلوار سے آج کے ہرطاغوت کا دل دہلتا ہے اور ہر ستم گر کا دم نکلتا ہے۔
آخر میں اس رہبر پر ایک نظم:
علیؑ کا بیٹا علی
موت سے بڑھ کر موت سے بچنے کا
کوئی حفاظتی حصار نہیں
بجز خدا
زندگی پر کسی کا کوئی اختیار نہیں
اس حقیقت سے آشنا
حیدر کرارؑ کا ایک فرزندِ ذی وقار
کھلے میدان میں مصلائے عبادت بچھا کر
اور خدائے برتر کے سامنے اپنا سر جھکا کر
ہر اہل تماشا کی آنکھ پر روشن کر گیا کہ
وہ اپنے سر پر لٹکتی ہوئی ہر تلوار کو
آج اپنی خاطر میں نہ لاتے ہوئے
اپنے خالق کی بارگاہ میں
کامل اطمینان کے ساتھ سجدہ ریز ہے