Tuesday 28 Jan 2025 20:44
تحریر: سید اسد عباس
مجھے اس بات پر قطعاً حیرت نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی آمد کے دوسرے ہفتے میں ہی اسرائیل پر لگی دو ہزار پونڈ وزنی بمب سے متعلق پابندی ہٹا دی ہے اور ساتھ ساتھ انھوں نے اردن اور مصر کو پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو عارضی یا لمبے عرصے کے لیے اپنے ملکوں میں آباد کرنے کا کہا ہے۔ یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی جرائم کی مکمل پشت پناہی کے باوجود اسے وزنی بمب (بنکر بسٹرز) فراہم کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل یہ بمب خرید چکا ہے، لہذا ان کو ریلیز کیا جانا چاہیئے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ٹرمپ نے اردن کے شاہ عبداللہ سے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ مسمار ہوچکا ہے اور وہاں لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ عرب ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے لیے مستقل یا عارضی طور پر نئی رہائش گاہیں بنانا چاہتے ہیں۔
اردن نے فی الحال ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح مصری صدر السیسی نے بھی اِس کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اِس اقدام سے مصر اور اسرائیل کے مابین 1979ء کا اَمن معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔اہلِ فلسطین نے بھی ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے اور اپنی سرزمین نہیں چھوڑیں گے۔ فلسطینی تنظیم حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے بھی اِس بات کو قبول کرنے سے اِنکار کر دیا ہے۔ حماس نے تو امریکی صدر کے اِس منصوبے کو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے جبری بے دخلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ سے نقل مکانی کی کوئی پیش کش قابلِ قبول نہیں، چاہے یہ تعمیرِ نو کے نام ہی پر کیوں نہ ہو، یہ صیہونی عزائم کی تکمیل کے مترادف اور فلسطینی عوام کے حقوق اور آزادی کے خلاف ہے۔
حماس کے بیرون ملک نائب سربراہ نے بھی اِس جبری ہجرت کی تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں نے اپنی سرزمین کے تحفظ کے لئے 15 ماہ موت، خونریزی اور تباہی و بربادی کا سامنا کیا، معاملہ علاقے کا محاصرہ ختم کرکے فلسطینیوں کی اپنے گھروں میں واپسی کا ہے، فلسطینی اپنے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو خود کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت 5.8 ملین رجسٹرڈ فلسطینی ہمسایہ ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ سپین کے وزیر خارجہ نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ فلسطینیوں سے متعلق ہے، جن کو اسی علاقے میں رہنا چاہیئے۔ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر ان کی کسی بھی دوسرے ملک میں منتقلی درست نہیں ہے۔ سپین کے وزیر خاجہ نے کہا کہ یورپی یونین کو اس حوالے سے اپنی خود مختار پالیسی تشکیل دینی چاہیئے۔
دو روز پہلے غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت دوسرے مرحلہ میں مزید قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا، جبکہ حماس نے بھی چار خواتین اسرائیلی فوجیوں کو رہا کرتے ہوئے انھیں ہلال احمر کے حوالے کر دیا۔ معاہدے کے تحت غزہ سے ہر اسرائیلی قیدی کی رہائی کے بدلے 50 فلسطینی قیدی رہا ہوں گے۔ قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب سے 3 اسرائیلی خواتین کو رہا کیا گیا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل نے 90 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔ اس دوران جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایک درجن کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔
راقم کی نظر میں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، فلسطینی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ٹرمپ کا یہ بیان 1948ء کی امریکی خاموش پشت پناہی سے زیادہ سنگین ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کر دیا تھا۔ امریکی صدر کے اس بیان پر حیرت اس لیے نہیں کہ ان کا بیان صہیونی مسیحیوں (اوینجیلیکلز) کے ایجنڈے کی تکمیل کا اگلا مرحلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ٹرمپ کے اس بیان کو سنجیدہ لیا جائے یا "دیوانے کی بڑ" سمجھا جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ فلسطینی یقیناً اپنے علاقوں کو چھوڑ کر کہیں اور آباد نہیں ہونا چاہتے ہیں، نہ ہی ہمسایہ ممالک منجملہ اردن، مصر، لبنان یا شام مزید فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آباد کرنا چاہیں گے، جبکہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے بعد غزہ نام کی کوئی بستی فلسطینی ریاست کا حصہ نہیں رہ جائے گی۔
پندرہ ماہ کی حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ پورے غزہ کے لیے تعمیر نو ازحد ضروری ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 60 فیصد شہری ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، جنگ نے 20 لاکھ سے زائد غزہ کے باشندوں کو بے گھر، بے روزگار اور زندہ رہنے کے لیے خوراک کی امداد پر منحصر کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں موجود ملبے کو مکمل طور پر ہٹانے کے لیے برسوں کا وقت درکار ہے اور تعمیر نو اس سے بھی زیادہ وقت کی متقاضی ہے ۔ ایسے میں ٹرمپ کا انتہائی قبیح بیان واقعاً تشویش ناک اور قابل مذمت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ غزہ کی تعمیر نو بیرونی امداد سے ممکن ہے، ٹرمپ کی اس تجویز کے بعد کیا ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایسے کسی سلسلے کو قبول کرے گی، جس سے ایک مرتبہ پھر حماس غزہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرسکے۔؟ کیا اسرائیل ایسی کسی تعمیر نو کی اجازت دے گا۔؟
میرے خیال میں مظلوم فلسطینیوں کو بقاء کا ایک اور چیلنج اور معرکہ درپیش ہے، جس کے ہتھیار بمب اور بندوقیں نہیں بلکہ بھوک، افلاس، بیماری، پیاس، ناخواندگی اور چھت کی عدم دستیابی ہیں۔ راقم کی رائے میں اب معاہدہ ابراہیمی میں مزید ممالک کی شمولیت ترجیحات میں سے نہیں ہے بلکہ پہلی ترجیح فلسطینیوں کو غزہ سے رضاکارانہ یا جبری بے دخلی پر مجبور کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ امریکی صدر کے غزہ کو صاف کرنے کے بیان کے زیر اثر بعض عرب ریاستیں سفارتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے غزہ کی تعمیر نو اور وہاں انتظامی سیٹ اپ کی تشکیل کی ذمہ داری قبول کر لیں، تاہم حماس کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ القسام کے وحدۃ الظل کی اسرائیلی قیدیوں کے ہمراہ آمد یقیناً اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل پندرہ ماہ کی ظالمانہ اور اندھی بربریت کے باوجود حماس کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پایا، تاہم جنگ کو ختم نہیں سمجھنا چاہیئے۔ خدا حماس کے جنگجوؤں کو سلامت رکھے اور مزاحمت فلسطینیوں کی فتح تک جاری رہے۔ آمین
مجھے اس بات پر قطعاً حیرت نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی آمد کے دوسرے ہفتے میں ہی اسرائیل پر لگی دو ہزار پونڈ وزنی بمب سے متعلق پابندی ہٹا دی ہے اور ساتھ ساتھ انھوں نے اردن اور مصر کو پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو عارضی یا لمبے عرصے کے لیے اپنے ملکوں میں آباد کرنے کا کہا ہے۔ یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی جرائم کی مکمل پشت پناہی کے باوجود اسے وزنی بمب (بنکر بسٹرز) فراہم کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل یہ بمب خرید چکا ہے، لہذا ان کو ریلیز کیا جانا چاہیئے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ٹرمپ نے اردن کے شاہ عبداللہ سے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ مسمار ہوچکا ہے اور وہاں لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ عرب ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے لیے مستقل یا عارضی طور پر نئی رہائش گاہیں بنانا چاہتے ہیں۔
اردن نے فی الحال ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح مصری صدر السیسی نے بھی اِس کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اِس اقدام سے مصر اور اسرائیل کے مابین 1979ء کا اَمن معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔اہلِ فلسطین نے بھی ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے اور اپنی سرزمین نہیں چھوڑیں گے۔ فلسطینی تنظیم حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے بھی اِس بات کو قبول کرنے سے اِنکار کر دیا ہے۔ حماس نے تو امریکی صدر کے اِس منصوبے کو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے جبری بے دخلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ سے نقل مکانی کی کوئی پیش کش قابلِ قبول نہیں، چاہے یہ تعمیرِ نو کے نام ہی پر کیوں نہ ہو، یہ صیہونی عزائم کی تکمیل کے مترادف اور فلسطینی عوام کے حقوق اور آزادی کے خلاف ہے۔
حماس کے بیرون ملک نائب سربراہ نے بھی اِس جبری ہجرت کی تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں نے اپنی سرزمین کے تحفظ کے لئے 15 ماہ موت، خونریزی اور تباہی و بربادی کا سامنا کیا، معاملہ علاقے کا محاصرہ ختم کرکے فلسطینیوں کی اپنے گھروں میں واپسی کا ہے، فلسطینی اپنے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو خود کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت 5.8 ملین رجسٹرڈ فلسطینی ہمسایہ ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ سپین کے وزیر خارجہ نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ فلسطینیوں سے متعلق ہے، جن کو اسی علاقے میں رہنا چاہیئے۔ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر ان کی کسی بھی دوسرے ملک میں منتقلی درست نہیں ہے۔ سپین کے وزیر خاجہ نے کہا کہ یورپی یونین کو اس حوالے سے اپنی خود مختار پالیسی تشکیل دینی چاہیئے۔
دو روز پہلے غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت دوسرے مرحلہ میں مزید قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا، جبکہ حماس نے بھی چار خواتین اسرائیلی فوجیوں کو رہا کرتے ہوئے انھیں ہلال احمر کے حوالے کر دیا۔ معاہدے کے تحت غزہ سے ہر اسرائیلی قیدی کی رہائی کے بدلے 50 فلسطینی قیدی رہا ہوں گے۔ قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب سے 3 اسرائیلی خواتین کو رہا کیا گیا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل نے 90 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔ اس دوران جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایک درجن کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔
راقم کی نظر میں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، فلسطینی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ٹرمپ کا یہ بیان 1948ء کی امریکی خاموش پشت پناہی سے زیادہ سنگین ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کر دیا تھا۔ امریکی صدر کے اس بیان پر حیرت اس لیے نہیں کہ ان کا بیان صہیونی مسیحیوں (اوینجیلیکلز) کے ایجنڈے کی تکمیل کا اگلا مرحلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ٹرمپ کے اس بیان کو سنجیدہ لیا جائے یا "دیوانے کی بڑ" سمجھا جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ فلسطینی یقیناً اپنے علاقوں کو چھوڑ کر کہیں اور آباد نہیں ہونا چاہتے ہیں، نہ ہی ہمسایہ ممالک منجملہ اردن، مصر، لبنان یا شام مزید فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آباد کرنا چاہیں گے، جبکہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے بعد غزہ نام کی کوئی بستی فلسطینی ریاست کا حصہ نہیں رہ جائے گی۔
پندرہ ماہ کی حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ پورے غزہ کے لیے تعمیر نو ازحد ضروری ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 60 فیصد شہری ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، جنگ نے 20 لاکھ سے زائد غزہ کے باشندوں کو بے گھر، بے روزگار اور زندہ رہنے کے لیے خوراک کی امداد پر منحصر کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں موجود ملبے کو مکمل طور پر ہٹانے کے لیے برسوں کا وقت درکار ہے اور تعمیر نو اس سے بھی زیادہ وقت کی متقاضی ہے ۔ ایسے میں ٹرمپ کا انتہائی قبیح بیان واقعاً تشویش ناک اور قابل مذمت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ غزہ کی تعمیر نو بیرونی امداد سے ممکن ہے، ٹرمپ کی اس تجویز کے بعد کیا ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایسے کسی سلسلے کو قبول کرے گی، جس سے ایک مرتبہ پھر حماس غزہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرسکے۔؟ کیا اسرائیل ایسی کسی تعمیر نو کی اجازت دے گا۔؟
میرے خیال میں مظلوم فلسطینیوں کو بقاء کا ایک اور چیلنج اور معرکہ درپیش ہے، جس کے ہتھیار بمب اور بندوقیں نہیں بلکہ بھوک، افلاس، بیماری، پیاس، ناخواندگی اور چھت کی عدم دستیابی ہیں۔ راقم کی رائے میں اب معاہدہ ابراہیمی میں مزید ممالک کی شمولیت ترجیحات میں سے نہیں ہے بلکہ پہلی ترجیح فلسطینیوں کو غزہ سے رضاکارانہ یا جبری بے دخلی پر مجبور کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ امریکی صدر کے غزہ کو صاف کرنے کے بیان کے زیر اثر بعض عرب ریاستیں سفارتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے غزہ کی تعمیر نو اور وہاں انتظامی سیٹ اپ کی تشکیل کی ذمہ داری قبول کر لیں، تاہم حماس کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ القسام کے وحدۃ الظل کی اسرائیلی قیدیوں کے ہمراہ آمد یقیناً اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل پندرہ ماہ کی ظالمانہ اور اندھی بربریت کے باوجود حماس کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پایا، تاہم جنگ کو ختم نہیں سمجھنا چاہیئے۔ خدا حماس کے جنگجوؤں کو سلامت رکھے اور مزاحمت فلسطینیوں کی فتح تک جاری رہے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1187232
منتخب
29 Jan 2025
29 Jan 2025
28 Jan 2025
28 Jan 2025
28 Jan 2025
28 Jan 2025
27 Jan 2025