0
Friday 31 Jan 2025 20:54

فلسطین پر آسان قبضے کی امریکی سازش

فلسطین پر آسان قبضے کی امریکی سازش
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

بین الاقوامی سیاسی حالات کا جس طرح سے نقشہ سامنے آرہا ہے، اس میں دنیا کی نام نہاد سپر پاور امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غلیظ ارادہ اور بدنما چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی سیز فائر کا سہرا امریکی صدر اپنے سر باندھ رہے ہیں، لیکن اس کے بعد کے اعلانات، ارادوں اور اقدامات پر بین الاقوامی قوتیں بداعتمادی کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقتور ملک امریکہ کا صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد جو اعلان فلسطین کے حوالے سے کیا ہے، وہ بڑا غور طلب، مضحکہ خیز، خوفناک اور ظالمانہ سوچ کا عکاس ہے۔ غزہ کو برباد کرنے اور انسانی آبادیوں، سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد چند دن پہلے فلسطینی مسلمانوں کو فلسطین سے باہر آباد کرنے کا جو فارمولا ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا ہے، وہ ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہے۔ اس نے استدلال پیش کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو اتنا برباد کر دیا ہے کہ اب کھنڈرات پر مشتمل یہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔

یہاں کے رہائشیوں کو آباد کرنے اور تعمیر نو کو سالہا سال لگ سکتے ہیں، جس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے اردن کے بادشاہ عبداللہ ثانی اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بات کی ہے کہ یہاں کے رہائشی فلسطینی عوام کو اپنے ملک میں آباد کریں، یعنی مصر اپنے ریگستانی علاقے سرائے سینا میں فلسطینی عوام کو جگہ دے اور اردن سے کہا گیا ہے کہ وہ فلسطین سے ملحقہ مغربی کنارے میں انہیں آباد کرے۔ میں حیران ہوں کہ امریکی صدر تاریخ سے نابلد ہیں، بچے بن رہے ہیں یا اپنی شیطانی خصلت کا اظہار کر رہے ہیں۔ شاید انہیں یہ سمجھ نہیں کہ فلسطین کے عوام سات دہائیوں سے اپنی سرزمین کو صیہونی طاقت سے آزاد کروانے کیلئے جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، وہ اپنی دھرتی ماں کو چھوڑ کر کیوں سرائے سینا اور اردن کے علاقوں میں آباد ہوں گے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ امریکی صدر فلسطینیوں کو اپنی ہی سرزمین سے نکال کر کسی دوسرے ملک میں آباد کرنے کا عندیہ ایسے ہی تھوڑا دے رہے ہیں، یہ تو خونخوار نیتن یاہو کی دلی خواہش اور تمنا ہے کہ حماس کو اس علاقے سے نکال دیا جائے اور فلسطین کو رہنے کے قابل نہ چھوڑا جائے۔

غزہ کی پٹی سرسبز علاقہ ہونے کے ساتھ زیر زمین معدنیات سے مالامال بھی ہے، جسے حماس کے رہنماء کسی صورت بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں گے اور نہ ہی اردن اور مصر اس غاصبانہ مضحکہ فارمولے پر عمل کرنے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں۔ ان بادشاہتوں کا کوئی اعتبار تو نہیں، لیکن فلسطینی عوام ایسا کرنے کی بجائے اپنی سرزمین پر موت کو ترجیح دیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی طاقتیں خاص طور پر فرانس جرمنی اور کئی دوسرے یورپی ممالک نے بھی اس فارمولے کو رد کرتے ہوئے ٹرمپ کی سوچ کی مذمت کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان نسل اور عالمی برادری کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کی سرزمین کے مالک و مختار فلسطینی عوام ہیں۔ انبیاء کی اس مقدس سرزمین کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے ایک بڑی سازش کے ذریعے صیہونی طاقتوں کے حوالے کرنے کی ابتدا کی، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اسلحے، سرمائے اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے مختلف جنگوں میں قابض صیہونی ریاست کے مدد گار رہے ہیں، تاکہ فلسطین پر قبضہ جاری رکھا جا سکے۔

آج بھی وہ اس قسم کی چالوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی وسعت پسندانہ سوچ کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل طاقت کے بل بوتے اور مختلف سازشوں کے ذریعے اپنی صیہونی مملکت کو وسعت دینے کا اعادہ کر رہا ہے اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے، جیسا کہ شام کے اندر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور جولانی گروپ کا اقتدار پر قبضہ اسرائیل کو تحفظ دینے اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی ابتدا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت شام کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرکے اسرائیل اپنی مملکت کو جغرافیائی وسعت دینے کی ابتدائی تیاریاں کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے اقدامات سے مملکت اردن کی خود مختاری کو بھی خطرہ ہے اور لبنان پر بھی قبضہ کرنے کی خواہش کا اظہار اسرائیل کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جو کہ ناممکن ہوگا اور خدشہ ہے کہ کرہ ارض ایک نئی عالمی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران امریکی مکاری کے اندر چھپی ہوئی جو تقاریر کی تھیں، وہ بڑی طاقت کے بڑے حکمران کے اقتدار میں آتے ہی بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں۔ یہاں مجھے مولائے کائنات امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا فرمان یاد آرہا ہے کہ دولت اور اقتدار آنے پر انسان کی اصلیت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ کینیڈا کو اپنی 51ویں ریاست کا درجہ دے کر اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہے، جس پر شدید ردعمل میں کینیڈا نے ٹرمپ کی مذمت کی ہے اور ناقابل عمل ہونے کا اظہار بھی کر دیا ہے، جبکہ اس سے زیادہ بڑی باتیں تو نئی امریکی کابینہ کے ارکان کی زبان سے نکل رہی ہیں کہ امریکہ اب ایران کیساتھ جنگ نہیں کرے گا بلکہ مذاکرات پر ایرانی قیادت کو آمادہ کرے گا، جس کا اظہار ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کئی بار ایٹمی طاقت بننے کے حوالے سے یورپ کیساتھ مذاکرات کا عندیہ بھی دیا تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر یوکرائن کی جنگ کو تو بند کرا سکتے ہیں، لیکن گرین لینڈ کو اپنے قبضے میں لینے کی سوچ ناقابل عمل ہی رہے گی۔ رہی بات پانامہ کینال کی تو وہ بھی میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ اس کا کنٹرول حاصل کرسکے گا، کیونکہ چین نے یہاں بہت بڑی سرمایہ کر رکھی ہے، وہ امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی 7 اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے، تو ان میں سے ایک بڑی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قبلہ اول کی آزادی کی اس تحریک کو حمایت حاصل ہونا بھی ہے۔ فلسطینی کیسے اسرائیل کو غزہ پر قبضہ کرنے کیلئے دوسرے ممالک میں چلے جائیں۔ وہ نسل در نسل اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1948ء سے اب تک انہوں نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔ تو اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکی صدر کی تجویز پر غزہ اسرائیل کے حوالے کر دیں، یہ ناممکن ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1187848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش