0
Friday 24 Jan 2025 13:46

مسلم امہ کے اتحاد میں سید حسن نصراللہ کا کردار

مسلم امہ کے اتحاد میں سید حسن نصراللہ کا کردار
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

سید حسن نصراللہ تاریخ کی ایک ایسی شخصیت اور کردار کا نام ہے، جس کے بارے میں دوست اور دشمن دونوں ہی معترف ہیں کہ انہوں نے دنیا کے حالات پر اپنا ایک خاص نقش چھوڑا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، اس وقت تک انہوں نے دو ایسی نسلوں کی تربیت کی ہے، جو ان کے راستے کو جاری رکھے گی اور اسی طرح اب ان کی شہادت کے بعد بھی دوستوں اور دشمنوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ آنے والی کئی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ جو کہ لبنان کے علاقہ برج حمود میں ایک شیعہ گھرانے میں سنہ1960ء میں 31 اگست کو پیدا ہوئے اور جب آپ شہید ہوئے تو دنیا آپ کو لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ کی حیثیت سے جانتی تھی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح سید حسن نصراللہ دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان شہرت اور عزت کا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، اسی طرح دشمن بھی ان کی ان صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔

صیہونی حکومت اور صیہونی میڈیا نے ہمیشہ سید حسن نصراللہ کو ایک ایسا انسان بیان کیا ہے کہ جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا، یعنی سچ کے سوا بولتا ہی نہیں ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ جب پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار و مشرکین مکہ سے پوچھتے تھے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے دوسری طرف سے ایک لشکر آ رہا ہے، جو تم لوگوں کو ختم کر دے گا تو کیا تم یقین کرو گے۔؟ کفار و مشرکین مکہ ہم زبان ہو کر کہتے تھے کہ آپ صادق ہیں، آپ سچ کے سوا بولتے ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ کی ذات بھی دشمنوں اور صیہونیوں کے لئے ایک ایسی ذات ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے سید حسن نصراللہ کے کردار کو اجاگر کرنا انتہائی اہم معاملہ ہے۔ لبنان میں 31 اگست سنہ1960ء کو آنکھ کھولنے والی سید حسن نصراللہ کی شخصیت اور ان کے مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کی جانے والی انتھک جدوجہد کے بارے میں بیان کرنے یا تحریر کرنے کے لئے اتنا کچھ مواد ہے کہ شاید راقم کے قلم میں اس قدر سکت نہ ہو۔

سید حسن نصراللہ صدی کی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے موجودہ زمانہ میں ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کے بارے میں قیامت تک آنے والی نسلیں مطالعہ کریں گی اور اس تاریخ سے سبق بھی حاصل کریں گی۔ حسن نصراللہ نے جس زمانے میں لبنان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا، جب ہر طرف ظلم کا دور تھا۔ جس وقت حسن نصراللہ جوانی کو پہنچے تھے، اس وقت تک لبنان کئی ایک داخلی جنگوں کے بعد آخرکار صہیونی غاصبانہ تسلط کا شکار ہوچکا تھا۔ سید حسن نصراللہ کہ جن کا تعلق ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا، ہرگز اس بات کو قبول نہ کرسکے کہ لبنان کی آزادی پر کوئی حرج آئے۔ حسن نصراللہ ابتدائی ایام میں لبنانی جوانوں کی متحرک تحریک امل میں شامل رہے اور امام موسیٰ صدر کی قیادت میں لبنان میں صیہونی دشمن کے قبضہ کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی طرح جب سنہ 1982ء میں باقاعدہ حزب اللہ قائم کی گئی تو سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کر لی۔

سید حسن نصراللہ کے مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق کردار کو بیان کرنے کے لئے یوں تو بہت سے پہلو ہیں اور بہت ساری خدمات ہیں، لیکن اس مقالہ میں راقم مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں میں سید حسن نصراللہ کے کردار اور کوشش کا ذکر کرے گا اور اسی ذکر میں ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سید حسن نصراللہ نے کس قدر مسلم امہ کے اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جان بھی فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر قربان کر دی۔ سید حسن نصراللہ نے مسلم امہ کے اتحاد کو بچانے اور پائیدار بنانے کے لئے فلسطینی مظلوم عوام کی طرف پھینکے گئے ان سارے تیروں اور گولوں کو اپنے جسم پر سہہ لیا کہ جو معصوم اور مظلوم فلسطینی بچوں اور خواتین کو قتل کرنا چاہتے تھے۔

اگر یہ کہا جائے کہ سید حسن نصراللہ کی فلسطینی عوام کی خاطر قربانی ان کے مسلم امہ کے مابین اتحاد کی ایک بے نظیر قربانی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج سید حسن نصراللہ کی مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق کوشش اور کردار کو سمجھنا ہو تو ہم حماس کے رہنماء اسامہ حمدان کے ان حالیہ بیانات کو دیکھ سکتے ہیں، جن میں انہوں نے سید حسن نصراللہ کو مسلم امہ کا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سید حسن نصراللہ کی جدوجہد و کوشش اور فلسطینی عوام کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو سنہرے الفاظ سے تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ یہ کلمات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ مسلم امہ کے باہمی اتحاد کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر چلے، لیکن یہ برداشت نہیں کیا کہ فلسطین پر ہونے والے ظلم اور جارحیت پر خاموشی اختیار کئے رکھیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے اس سے بڑی شاید ہی کوئی اور مثال ہمیں ملے گی۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے، جو پوری امت مسلمہ کے لئے متفقہ مسئلہ ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کے ذریعے مسلم امہ کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے چاہے کس قدر اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بات قبلہ اول بیت المقدس کی آتی ہے تو سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے بھی القدس کی آزادی کے راستے میں عملی جدوجہد کی اور یہاں تک کہ اپنی جان قربان کرکے ثابت کیا کہ مسلمان ایک ہیں اور قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک زبان اور ایک جان ہیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے حسن نصراللہ کا کردار اس طرح بھی عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ فلسطین کاز کے لئے صف اول میں کھڑے رہ کر غاصب صیہونی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے۔ چاہے لبنان پر صیہونی جارحیت ہو یا فلسطین کے کسی علاقہ میں صیہونی جارحیت ہو، سید حسن نصراللہ ہمیشہ اپنی زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے راستے پر گامزن رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کا دفاع کیا ہے۔

لبنانی عوام کا دفاع کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم نے لبنان اور شام میں عیسائی گھروں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو سید حسن نصراللہ نے مسیحی عوام کو بھی ایک مسیحا کی طرح نجات عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج شام و لبنان اور فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی عوام بھی سید حسن نصراللہ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی شخصیت نے فلسطین کاز کے لئے سرگرم تحریکوں کو باہمی یکجہتی کے رشتہ میں جوڑنے میں اہم کردار کیا۔ انہوں نے سنہ 2006ء میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اور مسلم دنیا میں ان کو مزید عزت اور حمایت حاصل ہوئی۔ انہوں نے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں کو باہمی ارتباط کی لڑی میں پرو ہنے کا کام انجام دیا اور ایک ایسا رابطہ اور تعلق قائم کیا، جس میں وحدت اور یکجہتی قائم تھی۔

ان کی یہ تمام تر کوششیں اور جدوجہد وحدت اسلامی کا پیغام دیتی ہے، کیونکہ انہوں نے فلسطین جیسے اہم مسئلہ پر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا ادراک کروایا کہ ہم سب کے اتحاد او وحدت کے بغیر قبلہ اول آزاد نہیں ہوگا۔ یہ سید حسن نصراللہ ہیں کہ جنہوں نے اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے مسلم دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ القدس کی آزادی کی چابی مسلم امہ کے اتحاد میں ہے۔ سید حسن نصراللہ چونکہ لبنان کے ایک ایسے معاشرے میں موجود رہے کہ جہاں سنی، شیعہ، عیسائی، دروز اور اسی طرح مسلمانوں کے متعدد فرقوں پر مبنی سوسائٹی موجود ہے۔ ایسے معاشرے میں انہوں نے حزب اللہ کی 32 سال تک قیادت سنبھالی اور سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اپنی جان بھی فلسطین کاز کے لئے قربان کر دی۔

انہوں نے ہمیشہ اپنی تقریروں میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ لبنان میں اہلسنت اور اہل تشیع علماء کے مابین ہم آہنگی کے لئے تجمع العلماء نامی ادارے کی ہمیشہ حمایت جاری رکھی کہ جس نے ہمیشہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو فروغ دیا۔ سید حسن نصر اللہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ مسلم امہ کو داخلی انتشار اور اختلافات سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی، کیونکہ سید حسن نصراللہ اس بات پر مضبوطی سے یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں الجھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے متحد ہو کر مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ انہوں نے ہمیشہ اس اتحاد کو فلسطین کی آزادی کی کلید سے تشبیہ دی۔ سید حسن نصراللہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو قائم کرنے کے لئے مسئلہ فلسطین کو انتہائی نوعیت کی اہمیت دیتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری وحدت اور اتحاد کے بغیر انجام نہیں دی جا سکتی۔

سید حسن نصراللہ نے فلسطین کاز کی حمایت صرف اس لئے انجام دی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ فلسطین کی حمایت کو کسی ایک فرقہ یا قوم و مسلک کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔ سید حسن نصراللہ نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو مسلمانوں کی طاقت قرار دیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مسلمان متحد ہو کر عالمی استعماری قوتوں کا مقابلہ کریں۔انہوں نے مسلم دنیا میں سامراجی نطام سے تسلط اور نجات کا واحد راستہ مسلمانوں کا اتحاد قرار دیا اور ہمیشہ اس کاز کے لئے سرگرم رہے۔ فلسطین کاز کے لئے سید حسن نصراللہ کی عملی جدوجہد ایسے ہی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سید حسن نصراللہ شہید ہوچکے ہیں، لیکن ان کے افکار پوری دنیا میں جگہ بنا چکے ہیں، آج دنیا بھر میں سید حسن نصراللہ کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ آج غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے اپنے گھروں میں سید حسن نصراللہ کی تصاویر لگا رکھی ہیں، جو سید حسن نصراللہ کی مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششوں کا ایک ثمر ہے۔

سید حسن نصراللہ کی زندگی بھر میں مسلمانوں کے اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششیں یقیناً قابل قدر ہیں۔ ایک اور اہم کوشش یہ ہے کہ انہوں نے فلسطین کی عسکری تنظیموں کی معاونت کی اور فلسطینی تنظیموں تک جدید ٹیکنالوجی اور عسکری مدد پہنچانے کو ہمیشہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا۔ ان کی یہ مدد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ فرقوں اور مسالک کی قید سے آزاد ایک بلند و بالا مقام کے انسان تھے کہ جن کی پوری زندگی مسلم امہ کی ترقی اور کامیابیوں کے لئے صرف ہوئی اور اسی لئے آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ کا مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کردار ایک بے مثال کردار ہے، جس کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی عملی جدوجہد اور اپنے کلمات سے مسلم امہ کے اندر یہ احساس بیدار کیا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتحاد کی راہ پر چل پڑیں تو مسلم دنیا اپنی کھوئی ہوئی حیثیت، عزت اور وقار کو دوبارہ حاصل کر لے گی۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی اس عملی جدوجہد سے اور شہادت کے عظیم رتبہ سے ثابت کیا ہے کہ مسلم امہ کے اتحاد اور خاص طور پر ہمارے مشترکہ مسئلہ فلسطین کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جا سکتا ہے اور انہوں نے خود اپنی جان کو قربان کرکے دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو سوگوار کیا ہے، لیکن اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سید حسن نصراللہ دنیا بھر کی باعزت اور حریت پسند اقوام کے درمیان ایک چمکتا ہوا ستارہ رہیں گے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرتے رہیں گے اور مسلم امہ کے اتحاد کے لئے جہاں ان کی زندگی میں کوشش جاری رہی، اب ان کی شہادت کے بعد آنے والی نسلوں کے ذریعے یہ مشن اور کاز جاری رہے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد آج اسلامی تعلیمات کے مطابق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد قرآنی تعلیمات کے مطابق دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مسلم دنیا کو آج فرقہ واریت، استعماری طاقتوں کی غنڈہ گردی، داخلی تنازعات اور دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے حالات میں سید حسن نصراللہ جیسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے اور اب چونکہ وہ شہید ہوچکے ہیں تو ان کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے سید حسن نصراللہ کے مشن اتحاد بین المسلمین کو زندہ رکھا جائے۔
خبر کا کوڈ : 1186307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش