0
Wednesday 16 Oct 2024 13:36

یورپ کی منافقت

یورپ کی منافقت
تحریر: سید رضا میر طاہر

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے یوکرین کے تنازع میں ایران کی مبینہ مداخلت اور صیہونی حکومت کے جارحانہ اقدامات کے خلاف ایران کے جائز ردعمل کی مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ وہ ایران پر پابندیاں لگانے کے پابند ہیں۔ اس بیان میں، جو منگل کی صبح لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد کہا گیا ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ اور یورپی یونین کے سربراہ خارجہ، ایران کے اسرائیل پر حملوں اور اس ملک کے بیلسٹک میزائل روس کو دینے کی مذمت کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ پیر کو یورپی یونین نے سات ایرانی شہریوں اور سات ایرانی کمپنیوں کو پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے۔ اس بنیاد پر ایران ایئر، ماہان ایئر، ساہا، باسمید پویا الیکٹرانکس، ایران ایلومینا، تفتار تدبیر آریا اور شھید حاج علی موحد ریسرچ سینٹر کے ساتھ 7 ایرانی شہریوں کو بیلسٹک میزائل روس کو  بھیجنے کے الزام میں  بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پابندیاں ہدف مند ہیں اور ان کا مقصد ایران کی مخصوص پالیسیوں اور سرگرمیوں کو روکنا ہے اور یورپی یونین ایران اور یورپ کے درمیان ہوائی ٹریفک یا عوامی رفت و آمد میں خلل ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ یورپی یونین نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جن افراد پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان کے اثاثے منجمد کر دیئے جائیں گے اور ان پر یورپی یونین کے سفر پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔

برطانیہ نے بھی ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے جارحانہ اور دہشت گردانہ اقدامات کے جواب میں ایران کے جائز اقدام "وعدہ صادق 2" آپریشن کی مذمت کی اور اس سلسلے میں متعدد ایرانی افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے غاصب صیہونی حکومت کے جارحانہ اقدامات اور وحشیانہ جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی وجہ  سے خطے کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور دعویٰ کیا کہ بارہا انتباہات کے باوجود ایران اور اس کے پراکسیوں کے خطرناک اقدامات سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے خلاف نئی یورپی پابندیاں دو بنیادی وجوہات پر مبنی ہیں۔ ان میں پہلا مسئلہ یوکرین کی جنگ کے دوران روس کو ایران کی جانب سے ہتھیاروں کی امداد کا مبینہ مسئلہ ہے، خاص طور پر ڈرون اور اب یوکرین کی جنگ میں بیلسٹک میزائل بھیجنا۔

یوکرین کی جنگ میں ایران کے ملوث ہونے کے مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں، جبکہ ایران اور روس کے حکام بارہا اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان اختلافات کو دور کرنے اور فوجی تنازعات کے خاتمے کے لیے سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یوکرین کے بحران کے آغاز کے بعد سے، ایران کبھی بھی اس فوجی تنازعہ کا حصہ نہیں رہا اور اس نے ہمیشہ اس بحران اور تنازع کے خاتمے کے لیے سیاسی حل اور دو طرفہ مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ یوکرین کے بحران کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کا اصولی اور اعلانیہ نقطہ نظر گذشتہ دو سالوں سے بدستور برقرار ہے، لہذا اس تناظر میں روس کو بیلسٹک میزائل بھیجنے کے دعوے کی تکرار سیاسی اہداف و مقاصد کے تحت ہے، جو بالکل ہی بے بنیاد ہے۔

ایران کی خیر سگالی اور یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے اس کی کوششوں کے باوجود، مغربیوں نے یوکرین کی مغرب نواز حکومت کے ساتھ مل کر گذشتہ تین سالوں سے تہران کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے، جس میں روس کے ساتھ ایران کے ہتھیاروں کے تعاون کا الزام بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں ستمبر 2022ء کے آخر میں ایک غیر دوستانہ اقدام کرتے ہوئے کیف نے یوکرین سے ایرانی سفیر کی واپسی اور اس کے ملازمین میں کمی کا مطالبہ کیا تھا۔ بہرحال یوکرین کی جنگ میں ایرانی ڈرونز کے استعمال کے بارے میں کیف کا دعویٰ مغرب کے لیے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا بہانہ بن گیا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اور امریکہ نے ایران کے خلاف یوکرائنی جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرون کے استعمال کے بارے میں غیر ثابت شدہ دعووں کی بنیاد پر پابندیوں کا اعلان کیا۔

اس کے علاوہ، اکتوبر 2022ء کے آخر میں اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں، برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر مشتمل یورپی ٹرائیکا نے، یوکرین کی جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرون کے استعمال کے حوالے سے غیر ثابت شدہ دعووں کو دہراتے ہوئے، اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ یہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی  ہے اور اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا ان دعوؤں کی تردید کی ہے اور اسے ایران فوبیا کے تحت مغرب کی نفسیاتی اور پروپیگنڈہ جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے نئی پابندیوں کے نفاذ سمیت ایران کے خلاف کارروائی کی بنیاد کہا ہے۔ تہران کے مطابق ان دعوؤں کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور مغربی ممالک نے اس حوالے سے شعوری طور پر بہانہ تراشا ہے، جس پر ایران کے اعلیٰ حکام نے کئی بار آواز اٹھائی ہے۔

ایرانی ایئرلائنز پر پابندیوں کے حوالے سے ایک اور مسئلہ، جو قدرتی طور پر یورپی ممالک کے لیے ایرانی پروازوں کو معطل کرنے کا باعث بنے گا، درحقیقت ان کمپنیوں کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے، جس سے بالآخر ایران اور ایرانی پروازوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان ممالک میں دس لاکھ سے زائد ایرانی تارکین وطن کی موجودگی اور ان میں سے بہت سے افراد کی ایران اور ان ممالک کے درمیان نقل و حرکت کے پیش نظر یہ مسئلہ دوہری اہمیت کا حامل ہے۔ یورپی یونین کا یہ عمل بھی امریکہ سے ہم آہنگ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایئرلائنز (ایران ایئر) کے خلاف نئی امریکی پابندیوں سے ان ممالک کا سفر کرنے والے ایرانی و غیر ایرانی شہریوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

یورپیوں کا مقصد ایرانی ایئر لائنز بالخصوص ایران ایئر کے مسافروں اور ٹرانسپورٹ طیاروں کی یورپی ممالک تک رسائی کو روکنا ہے اور اس طرح انہیں کافی مالی نقصان پہنچانا ہے۔ مزید برآں، امریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران ایئر پر پابندی سے مسافروں کی پروازوں کے ساتھ ساتھ  اسپیئر پارٹس اور دیگر ضروری اشیاء تک رسائی میں کمی آئے گی اور واشنگٹن کے دعوے کے برعکس، جو ایرانی عوام کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے، اس سے ایرانی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد ایرانی عوام کی مخالفت اور مغرب کی طرف سے ان کے خلاف دباؤ کو تیز کرنا ہے۔

ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کے لیے یورپی یونین اور برطانیہ کا دوسرا عذر صیہونی حکومت کے خلاف "وعدہ صادق 2" کا میزائل آپریشن ہے۔ اس تناظر میں جو سوال اٹھایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ کیا تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ شہید "اسماعیل ہنیہ" کا قتل (جو کہ ایران کی قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی واضح مثال ہے) لبنان میں ایران کے سینیئر عسکری مشیر شہید سردار عباس نیلفروشان کی شہادت اور اسی طرح حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کا یورپیوں کے پاس کوئی جواب ہے۔؟

ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے "وعدہ صادق 2" آپریشن کے اجراء کی ضرورت کے بارے میں کہا ہے کہ تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد امریکیوں اور یورپیوں نے بار بار درخواست کی کہ ہم  تحمل سے کام لیں، تاکہ غزہ میں جنگ بندی ہوسکے۔ ہم صبر و تحمل کے ایک مشکل دور سے گزرے، لیکن صیہونی حکومت نے امریکہ کی حمایت اور حتیٰ کہ امریکیوں کی ہری جھنڈی کے ساتھ اپنے جرائم میں اضافہ کیا اور لبنان کے عوام کے خلاف قتل عام کا ارتکاب کیا، خاص طور پر عظیم الشان شہید سید حسن نصراللہ اور عباس نیلفروشان کی شہادت ایک بہت بڑا جرم تھا، لہذا اس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔

 آخرکار یہ آپریشن سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کی منظوری، مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے نوٹیفکیشن اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج و وزارت دفاع اور پاسداران انقلاب اسلامی کے تعاون سے انجام پایا۔ یہ آپریشن عالمی اور ملکی قوانین کے عین مطابق ہے اور آئندہ بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق دشمن کو تباہ کن جواب دیا جائے گا۔ بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ "وعدہ صادق 2" آپریشن نہ صرف صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کے لئے ایران کا ایک قانونی حق  تھا بلکہ یہ عمل ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات کے خلاف اپنی سرزمین اور قومی سلامتی کا فیصلہ کن دفاع کرنے کے ایرانی عزم اور اختیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1166828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش