تحریر: اتوسا دیناریان
غزہ پٹی میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم میں اضافے اور غزہ جنگ میں تل ابیب کی پالیسیوں کے حوالے سے مغربی ممالک کی مسلسل حمایت کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم ہزاروں یورپی باشندے فلسطینیوں اور لبنانی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور انہوں نے صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین نے غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے غیر انسانی اقدامات اور وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اور اپنے ملکوں کے حکام کی طرف سے فلسطین و لبنان کے مظلوم عوام کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے تل ابیب کے بائیکاٹ کی درخواست کی ہے۔
غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے بے مثال جرائم بالخصوص ہسپتالوں، اسکولوں، ثقافتی مقامات جیسے شہری مراکز پر بمباری، نیز خواتین اور بچوں کا قتل عام اور امدادی کارکنوں پر حملے اس بات کا باعث بنے ہیں کہ رائے عامہ میں اسرائیل سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ خوراک اور ادویات کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنے کیوجہ سے بھی دنیا کے کئی ممالک کی رائے عامہ نے مختلف اجتماعات میں اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی، مالی امداد بند کرنے اور سیاسی معاملات میں اسرائیل سے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ممالک کے عوام نے صیہونی حکومت کے ساتھ فوجی تعاون بھی بند کرنے کی استدعا کی ہے۔ اگرچہ دنیا کے کئی ممالک میں بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اینڈ سینکشنز مہم کے نام سے اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی پالیسی کئی سالوں سے جاری ہے، لیکن اب بہت سے ممالک بالخصوص اسلامی ممالک میں اس پر زیادہ سنجیدگی سے عمل کیا جا رہا ہے۔
اس مہم کا مقصد قابض حکومت پر فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضے اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے نیز لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے اپنے ملک واپس جانے کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے اسرائیل پر اقتصادی دباؤ ڈالنا ہے۔ یہ مہم حالیہ مہینوں میں وسیع ہوگئی ہے اور بہت سے یورپی ممالک میں اس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ غزہ پٹی کے مکینوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے تسلسل کے بعد اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک میں روز بروز وسعت آئی ہے اور اب مغربی معاشروں کے مختلف طبقات خصوصاً طلباء اس تحریک میں شامل ہوگئے ہیں۔ اسلامی بلکہ یورپی ممالک میں بھی میکڈونلڈز کی بہت سی شاخوں کا صارفین نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے، جس کی وجہ میکڈونلڈز اور نیسلے جیسی کمپنیوں کی مصنوعات کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس تناظر میں "فلسطینی انیشیٹو پلیٹ فارم" کے ترجمان "تولائی گوکچیمان" نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد شروع ہونے والا انفرادی بائیکاٹ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل قدرتی وسائل سے محروم ملک ہے اور غزہ میں استعمال ہونے والے بم دوسرے ممالک سے منگوائے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ وہ تمام بم اور ہتھیار جن سے اسرائیل فلسطینیوں پر حملہ کرتا ہے، وہ دراصل دوسرے ممالک میں کاروباری پیسوں سے تیار کیے جاتے ہیں اور اگر خریدار اسرائیلی مصنوعات نہیں خریدے گا تو یہ مالیاتی نظام تباہ ہو جائے گا۔ اسرائیلی جرائم کے حالیہ تسلسل سے نہ صرف اس پابندیوں کی مہم میں شمولیت کا سلسلہ پھیل گیا ہے بلکہ یورپی شہری بھی اب یورپی حکومتوں سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور درحقیقت اسرائیل کے خلاف وسیع اقتصادی پابندیوں کی پالیسی کا استعمال کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں، یورپ کے انسانی حقوق کے نگراں ادارے نے حال ہی میں ایک بیان میں عالمی ممالک سے صیہونی حکومت کی حمایت ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف موثر پابندیاں لگا کر اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں اور ہر قسم کی سیاسی اور مالی امداد فوری طور پر بند کریں، بصورت دیگر وہ غزہ پٹی میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم اور نسل کشی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے جرائم اور اس کی توسیع کو بہت سی قومیں برداشت نہیں کر رہی ہیں اور وہ اس میں تاخیر کو بھی پسند نہیں کر رہی ہیں، لیکن دوسری جانب جمہوریت کے تمام نعروں کے باوجود یورپی حکومتیں اس مطالبے پر کان بند کرکے اسرائیل کو مسلسل امداد فراہم کر رہی ہیں۔