تحریر: سید رضی عمادی
عبرانی میڈیا نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ خطے میں اسرائیل کی طرف سے جاری ایک سالہ کشیدگی اور جنگوں نے اسرائیلی باشندوں کے لیے سنگین نفسیاتی مسائل اور سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو تیرہ ماہ گزر چکے ہیں، ایک ایسی جنگ جس میں اسرائیل نے حماس اور غزہ کے عوام کے خلاف اپنی تمام تر طاقت استعمال کی اور بڑے پیمانے پر نسل کشی کی، لیکن غزہ کے عوام اور حماس کے جنگجو اب بھی مزاحمت کر رہے ہیں اور کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ اہل غزہ میں ہتھیار ڈالنے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی بلکہ گذشتہ دس دنوں میں مجاہدین کی طرف سے کئی کارروائیاں انجام دیں، جن میں شہادت پسندانہ آپریشن بھی شامل ہیں۔ بئر السبع علاقے میں شہادت پسندانہ آپریشن میں متعدد صیہونی آبادکار زخمی ہوئے۔
دریں اثناء حماس کے ہاتھوں میں اب بھی سو کے قریب اسرائیلی قیدی موجود ہیں اور صیہونی حکومت انہیں رہا کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ صیہونیوں کی غزہ پر بمباری کے نتیجے میں متعدد صیہونی قیدی ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ غزہ کی جنگ کے ساتھ ہی لبنان کے خلاف بھی تقریباً ایک ماہ سے جنگ جاری ہے۔ اگرچہ صیہونی حکومت نے لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو شہید کیا ہے، لیکن سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد مقبوضہ علاقوں کے خلاف حزب اللہ کے راکٹ حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے نہ صرف صیہونی پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ ناممکن ہے بلکہ مقبوضہ علاقوں کے شمالی علاقوں میں ان کا کوئی وجود نظر نہیں آتا ہے، البتہ حزب اللہ کے میزائل حملوں کی وجہ سے حیفا بھی غیر محفوظ ہوگیا ہے۔
صیہونی حکومت اپنے شدید پروپیگنڈے سے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ غزہ اور لبنان میں ہونے والے شدید حملوں، ٹنوں وزنی بموں کے استعمال، مزاحمت کاروں اور مجاہد کمانڈروں کے قتل سے وہ اس جنگ میں فاتح ہوسکتے ہیں تو یہ صیہونی حکومت کی غلط فہمی ہے۔ دوسری طرف بعض صیہونی حلقے بھی اس فتح کی اس داستان کو قبول نہیں کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ نے انہیں بہت زیادہ انسانی اور مادی نقصان پہنچایا ہے۔ ان نتائج میں سے ایک مقبوضہ زمینوں کے شہریوں کے لیے سنگین نفسیاتی صورت حال کا ابھرنا ہے۔ اس سلسلے میں عبرانی اخبار Ha'aretz نے مشہور صہیونی مصنف "Tsvi Bareil" کے لکھے گئے ایک مضمون میں غاصب صیہونیوں کے فاشسٹ لیڈروں کے اقدامات سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے سائے میں صہیونیوں کی سنگین نفسیاتی حالت کا جائزہ لیا ہے۔
اس طرح کے تجزیوں نے صیہونی حکومت کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مصنف نے اس مضمون میں تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج اسرائیلی معاشرہ شرمندگی اور جرم کے احساس کے ساتھ گہری افسردگی کی حالت میں ہے اور یہ ایک ایسا مرحلہ ہے، جہاں ہم اس مشکل سانحے کے متاثرین کو تسلی بھی نہیں دے سکتے۔ درحقیقت، اسرائیلیوں کے پاس اس وقت اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔ ہارتض کے اس مضمون کے تسلسل میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ اداس اسرائیلی معاشرہ آج نفسیاتی صدمے کے سخت ترین مراحل سے گزر رہا ہے اور وہ حقیقت کو قبول کرنے کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، جسے انتہائی خطرناک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلیوں کو اب ایک افراتفری کی زندگی کی عادت ڈالنی ہوگی اور انہیں غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کا انتظار ترک کرنا ہوگا۔ صہیونی اخبار Haaretz کے تجزیئے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں فلسطین اور لبنان کے عوام کی بھرپور مزاحمت کا اعتراف کیا گیا ہے، جبکہ مقبوضہ علاقوں کے اسرائیلی عوام شدید ترین نفسیاتی حالات سے دوچار ہیں۔ اس رپورٹ کے مصنف نے کہا ہے کہ اسرائیلی ہمیشہ یہ سمجھتے تھے کہ فلسطینی ایک غیر فعال حالت میں ہیں اور انہوں نے خود کو اس زندگی کے مطابق ڈھال لیا ہے، لیکن جو ہوا، وہ ہمارے خیال کے برعکس تھا۔ نیز، ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ لبنانی حزب اللہ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے اور اس کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔