تحریر: بابر فاروقی
حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اسرائیلی کمانڈر کی جانب سے یہ دعویٰ کہ ’’ہم نئے سربراہ کو بھی جلد ختم کر دیں گے‘‘۔ ایک خطرناک اشارہ ہے، اسرائیلی کمانڈروں کی دھمکیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حزب اللہ اور حماس کی عسکری اور سیاسی طاقت سے اسرائیل کو مسلسل خطرہ رہتا ہے جبکہ دوسری طرف نیتن یاہو یہ کہہ رہا ہے کہ ابھی اس کا مشن مکمل نہیں ہوا آنے والے دنوں میں مزید کچھ ہوگا، جس سے اسرائیل کی واضح جارحیت اور غرور جھلکتا ہے، یہ دعویٰ نہ صرف حزب اللہ کے خلاف ایک سنگین دھمکی ہے، بلکہ پوری امت مسلمہ کے ضمیر پر ایک حملہ ہے، جو خاموشی کی چادر اوڑھے سب کچھ دیکھ رہی ہے، حسن نصراللہ، جو حزب اللہ کے قائد ہونے کے ساتھ ساتھ حق اور باطل کی جنگ میں ایک عظیم رہنما کی حیثیت رکھتے تھے، ہمیشہ اپنی مزاحمتی پالیسیوں اور اصولوں پر قائم رہے، وہ ان افراد میں سے تھے جنہوں نے مظلوموں کے حق کے لیے کھل کر آواز اٹھائی اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے، ان کی شہادت نہ صرف ایک فرد کا نقصان ہے بلکہ پوری مزاحمتی تحریک کا نقصان ہے۔
اسرائیلی کمانڈر کی یہ دھمکی اس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ صہیونی ریاست اپنے سامراجی عزائم میں کتنی پْر اعتماد ہے کہ اسے کسی عالمی یا مسلم دنیا کے ردعمل کا کوئی خوف نہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اْمت مسلمہ کہاں ہے؟ جن کے سامنے نہتے بچے، مظلوم خاندان اور بہادر رہنما شہید ہو رہے ہیں، تو کیا یہ صرف خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟، مسلمانوں کی یہ خاموشی بین الاقوامی اور علاقائی سیاست میں ان کے کمزور کردار اور تقسیم کا آئینہ دار ہے، عرب ممالک کے اندرونی اختلافات اور خارجی قوتوں کی مداخلت نے مسلمانوں کو اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونے سے روک دیا ہے، فلسطین اور لبنان کے مسائل، جنہیں مسلم دنیا کی ترجیحات میں ہونا چاہیئے، سیاسی مفادات اور ذاتی تحفظات کی نذر ہو چکے ہیں لیکن آج جس طرح امت مسلمہ خاموشی اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے، یہ ہمیں ماضی کے واقعات یاد دلاتی ہے، اندلس کا زوال مسلمانوں کی وہ شکست ہے جس کے نتیجے میں اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا، جس کا آغاز مسلم ریاستوں کی آپس کی لڑائیوں، داخلی کمزوریوں، اور عیسائی ریاستوں کے بڑھتے ہوئے اتحاد سے ہوا، کیا ہم ایک بار پھر وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں؟ ہم شاید اپنے اصل مقصد کو بھول چکے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے اور ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے، تو یہ ظلم ایک دن ہمارے دروازوں تک پہنچ جائے گا۔
ہمیں صرف نصراللہ کی شہادت پر افسوس نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کی مزاحمت اور ان کے مشن کو زندہ رکھنا چاہیئے، حسن نصراللہ کی شہادت نے ہمیں ایک بار پھر اس بات کا احساس دلایا ہے کہ حق اور باطل کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی، یہ شہادت ایک چیلنج ہے جس کا جواب صرف اتحاد، قوتِ مزاحمت، اور ایمانی طاقت کے ساتھ دیا جا سکتا ہے، اگر آج ہم خاموش رہے تو آنے والے کل میں ہمیں اس خاموشی کی قیمت چکانی پڑے گی، حسن نصراللہ کی قیادت اور ان کی مزاحمت امت مسلمہ کے لیے ایک مشعل راہ ہے، ان کی شہادت یا اسرائیلی دھمکیاں مسلمانوں کو بیدار کرنے کا ایک موقع ہیں کہ وہ اتحاد، مزاحمت، اور حق کی حمایت میں آگے آئیں۔ آج کا دور خاموشی کا نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے کا ہے،اگر مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے، تو حق و باطل کی اس جنگ میں باطل غالب آ سکتا ہے لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ حق ہمیشہ سر بلند ہوگا، یہ صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب مسلمان ایک متحد اور پرعزم قوم کے طور پر کھڑے ہوں، امت مسلمہ کی طرف سے اپنے پیاروں کی شہادت پر صرف مذمت اور احتجاج معمول بن چکا ہے لیکن عملی اقدامات کی کمی تشویشناک ہے، مظلوموں کی شہادت پر زبانی ہمدردی اور مذمتی بیانات وقتی تسلی تو سکتے ہیں، مگر حقیقی تبدیلی کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
امت مسلمہ کو محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر سیاسی اور سفارتی سطح پر مضبوط اتحاد بنانا ہوگا اور مظلوموں کی حمایت میں ٹھوس قدم اٹھانا ہوں گے، ورنہ یہ شہادتیں بے معنی ہو جائیں گی اور ظالم مزید بے خوف ہو جائے گا۔ آخر میں اتنا کہوں گا کہ تحریک اسلامی حماس کے اسماعیل ہنیہ ہوں یا حزب اللہ کے حسن نصراللہ، یہ دونوں امت مسلمہ کے دلیر سپوت تھے، جنہوں نے اپنی زندگیوں کو مظلوم فلسطینی عوام کی آزادی اور امت کے حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیا تھا، ان کی جدوجہد نے دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ہمیشہ حق کی آواز بلند کی، یہ دونوں رہنما اپنی قوم کے محافظ اور عالمی سطح پر امت مسلمہ کے مضبوط رہنما تھے، ان کی قیادت نے ہمیں یہ سکھایا کہ حق کے راستے پر صبر اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنا ضروری ہے، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور امت کو ان کی جدوجہد سے سبق حاصل کرکے بیدار ہونے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں خود سے یہ سوال بھی کرنا چاہیئے کیا ہم ہمیشہ خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ یا پھر ہم اپنے رہنماؤں کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مظلوموں کی داد رسی کے لیے اْٹھ کھڑے ہوں گے؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔