تحریر: سید رضی عمادی
نیتن یاہو اور ان کی انتہاء پسند کابینہ کی طرف سے جنگی محاذوں میں توسیع کو صیہونیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ نیتن یاہو کے مخالفین جنگ کی وسعت اور پھیلاؤ کو نیتن یاہو کی جنگ کے حوالے سے عدم آگاہی اور ناقص منصوبہ بندی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ میں ایک سال تک نسل کشی جاری رکھنے کے بعد اب اس جنگ کو لبنان اور شام تک پھیلا دیا ہے۔ اسرائیلی شخصیات اور ذرائع ابلاغ کا خیال ہے کہ غزہ اور لبنان میں جنگ کے جاری رہنے کے ساتھ ساتھ شام پر حملوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کو اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل نہیں ہوئے، اس لئے اب وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہیں اور اپنی خفت مٹانے کے لئے الٹے سیدھے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ ان اقدامات سے نیتن یاہو جنگ کی ایسی دلدل میں اتر جائیں گے، جس سے ان کا صحیح و سالم باہر آنا ناممکن ہوجائیگا۔
غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ میں نیتن یاہو کی ناقص منصوبہ بندی اور ناکامی پر مخالفین کی تنقید کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز میں طے کیے گئے فوجی اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ان اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے نیتن یاہو جنگ کو وسعت دینے پر مجبور ہوئے۔ جنگ کی توسیع سے غزہ کے خلاف جنگ کے مقاصد حاصل نہیں ہونگے بلکہ اس سے اسرائیل کے بحرانوں اور مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسرائیل میں اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے جنگ کی توسیع پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نیتن یاہو کی بدانتظامی کی وجہ سے جنگ کے کیچڑ اور دلدل میں پھنس گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنگ کا لبنان حتیٰ شام تک پھیلنا نہ صرف اسرائیل کے معاشی مسائل میں اضافے کا سبب بنے گا بلکہ اس حکومت کے سماجی بحرانوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے تجزیوں کے مطابق اس صورتحال کے جاری رہنے سے صیہونی حکومت کے لئے معاشی اور سماجی مسائل کو سنبھالنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ صہیونی اخبار "Calcalist" نے غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں میں معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فوج نے اس جنگ کی لاگت کا تخمینہ 40 بلین ڈالر سے زیادہ لگایا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جنگ کے جاری رہنے نیز لبنان اور شام تک پھیلنے سے صیہونی حکومت اور اس کے روایتی اتحادیوں کے تعلقات میں مزید دراڑ آئے گی۔ آج امریکہ اور یورپی ممالک نیتن یاہو کی تمام جنگی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرسکتے بلکہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے انچارج "جوزف بوریل" نے تو حال ہی میں کہا ہے کہ ہم نیتن یاہو کو جنگ جاری رکھنے سے روکنے میں ناکام ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی انتہاء پسند سخت گیر کابینہ کے ارکان کی رائے کے برعکس جنگ کا جاری رہنا مزاحمتی گروہوں کی تباہی کا سبب نہیں بن رہا بلکہ مزاحمتی گروہ اپنے قائدین کو کھو کر بھی نئے سرے سے اور نئے عزم کے ساتھ میدان میں سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔ مزاحمتی بلاک کے نئے رہنماء صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ کے حوالے سے مضبوط یقین رکھتے ہیں اور وہ اس وقت اپنی افرادی قوت اور فوجی طاقت کو از سر نو تشکیل دے رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار جوسٹ ہلٹرمین نے اس حوالے سے کہا ہے کہ گذشتہ سال غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد اپنے پیاروں کو کھونے والے بہت سے فلسطینی نوجوان اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے ایک نئے جذبے کے ساتھ حماس میں شامل ہو رہے ہیں۔ جوسٹ ہلٹرمین نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ حماس نے یقینی طور پر اپنی کچھ تباہ شدہ سرنگوں کو بھی دوبارہ تعمیر کرلیا ہے۔