0
Wednesday 17 Jul 2024 13:30

کربلا میں سیدالشہداء کی جنگی حکمت عملی

کربلا میں سیدالشہداء کی جنگی حکمت عملی
تحریر: سید تنویر حیدر

روز عاشورا حق و باطل اور خیر و شر کی دو عظیم قوتوں کے مابین جو معرکہ لڑا گیا، اس میں سیدالشہداء کی جنگی حکمت عملی کیا تھی؟ آپ نے دشمن سے مقابلے کے لیے کس طرح اپنے ایک مختصر لشکر کو ترتیب دیا اور ایسی کون سی جنگی حکمت عملی اختیار کی، جس کی بدولت آپ کا لشکر اپنی کم تعداد ہونے کے باوجود اپنے مقابل ایک بڑے لشکر کو بھاری جانی نقصان پہنچانے میں کامیاب رہا؟ زیر نظر مضمون میں ان سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ روز عاشورا حسینی لشکر محض 72 جانثاروں پر مشتمل تھا جبکہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے عبیداللہ بن زیاد نے تقریباً 35 ہزار کوفیوں کو مسلح کرکے امام عالی مقام کو شہید کرنے کے لیے میدان کربلا کی طرف روانہ کیا۔

اس کے باوجود جب ہم مختلف تاریخی مآخذ سے 61 ہجری میں لڑے جانے والے اس معرکہء کربلا کی تفصیلات پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عمر ابن سعد کے لشکر میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ جنگ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہی۔ اس جنگ کا کل دورانیہ صبح سے شام تک تھا۔ لیکن اگر دونوں لشکروں کی افرادی قوت میں تفاوت دیکھ کر بات کی جائے تو یہ جنگ اس سے بہت کم وقت میں اختتام کو پہنچ جاتی، لیکن امام حسین علیہ السلام نے ایسا جنگی حربہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے ان کے سپاہیوں کی کم تعداد کے باوجود یہ جنگ شام تک طول کھینچ گئی۔

ایران کے ایک عالم دین حجۃ الاسلام علی حیدری، جو  قدیم عربوں کے جنگی امور کے محقق ہیں اور انہوں نے کربلا کی جنگ کے حوالے سے بھی تحقیق کی ہے، ایک خبر رساں ادارے کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں فوجی نکتہ نظر سے معرکہ کربلا کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق عربوں کا یہ دستور تھا کہ میدان جنگ میں اگر کوئی اپنے مخالف لشکر کو انفرادی طور پر یا ایک کے مقابلے میں ایک کے اصول پر دعوت مبارزہ دیتا تو اخلاقی طور پر اس دعوت کو قبول کیا جاتا۔ ایسی حالت میں اس پر گروہی صورت میں حملہ نہ کیا جاتا۔ لیکن عمر سعد کی فوج نے جنگ کے اس اصول پر عمل نہیں کیا۔ اکثر اوقات جب امام کے لشکر کا کوئی سپاہی مقابلے کے لیے میدان میں قدم رکھتا تو دشمن کی فوج کا ایک گروہ اس پر حملہ آور ہو جاتا۔

یہ ایسا رویہ تھا، جو لشکر اشقیا کے کچھ سپاہیوں کی بیداری کا سبب بنا۔انہوں نے دیکھ لیا کہ عمر سعد کی فوج کم سے کم انسانی حقوق کی بھی پاسداری نہیں کر رہی۔ عمر سعد کی فوج کے اس طرز عمل نے اس کے جرائم کو مزید آشکار کر دیا۔ امام نے اپنے ساتھیوں کو ایک ایک کرکے رزم گاہ میں بھیجا۔ ہر جانثار میدان میں داخل ہوتے ہی رجز خوانی شروع کر دیتا۔ اپنا تعارف  کراتا اور جنگ شروع کر دیتا۔ اس طرح ہم نے دیکھا کہ ان کا قیام امر ہوگیا اور کربلا کے ہر مجاہد نے تاریخ کے صفحات پر اپنی جرآت و بہادری کی ایک الگ داستان چھوڑی۔ عاشورا کی صبح امام نے اپنے اصحاب اور اہل و عیال کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی مختصر فوج کو صف آراء کیا۔

زہیر بن قین کو میمنہ، یعنی لشکر کے دائیں جانب کا کمانڈر مقرر کیا۔ حبیب ابن مظاہر کو میسرہ، یعنی لشکر کے بائیں جانب کا کمانڈر بنایا اور جناب ابوالفضل عباس (ع) کو لشکر کا پرچم دار منتخب کیا اور پھر لشکر کو خیموں کے سامنے بٹھا دیا۔ آپ یہ حقیقت اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ عمر سعد کے کئی ہزار لشکریوں کے مقابلے میں شہید ہو جائیں گے۔ آپ نے یہ حقیقت شروع سے اپنے اصحاب پر بھی واضح کر دی تھی۔ آپ یہ جانتے تھے کہ وہ اپنے مختصر فوجی ساز و سامان کے ساتھ 35 ہزار کی فوج پر قابو نہیں پا سکتے۔ لیکن اپنی ایمانی قوت اور ذات خداوندی پر بھروسا کرتے ہوئے کسی ایسے شخص کی مانند میدان کارزار میں اترے، جو اپنے آپ کو فتح مند سمجھتا ہو۔

تمام شہدائے کربلا کی تمام جدوجہد میں بھی ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی ہمت اور جواں مردی اس شخص کی طرح ہے، جو خود کو میدان جنگ کا فاتح سمجھتا ہو۔ لشکر امام، میمنہ، میسرہ، قلب لشکر اور گھڑ سواروں اور پیادہ لشکریوں پر مشتمل تھا۔ امام نے اپنے تمام ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اس غیر مساوی جنگ میں جنگی قوانین کی مکمل پاسداری کریں۔ اس نازک موقع پر امام کے سپاہیوں کی زیادہ تر توجہ امام کی حفاظت پر مرکوز تھی۔ انہوں نے آخر دم تک مزاحمت کی، تاکہ امام کی مبارک زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ عمر بن سعد کی فوج اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتی تھی، تاکہ وہ امام عالی مقام کو شہید کرکے عبیداللہ بن زیاد اور یزید ملعون سے انعام و اکرام وصول کرسکے، لیکن یہ امام کے اصحاب باوفا کی مقاومت تھی کہ جس کی وجہ سے یہ جنگ گھنٹوں جاری رہی۔

ایک طرف امام کی میدان جنگ میں دیر تک رہنے کی حکمت عملی اور دوسری جانب امام کے ساتھیوں کی فنون جنگ میں اعلیٰ مہارت نے دشمن کو دیر تک الجھائے رکھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا، جب دشمن ہر راستے سے میدان جنگ میں وارد ہوا۔ ان حملہ آوروں میں کچھ پیدل تھے، کچھ سوار تھے، کچھ تیر اندازی کر رہے تھے اور کچھ نیزوں سے وار کر رہے تھے۔ امام کے اصحاب نے اس موقع پر اپنی جنگی حکمت عملی کے ذریعے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا اور امام کا دفاع کیا۔ صدر اسلام کے دور کی بعض جنگوں میں ہم جو غیر اخلاقی رویئے دیکھتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی لشکر اپنے مخالف لشکر کے عقب سے حملہ آور ہوتا ہے۔ یہاں ایک یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا عاشورا کی جنگ میں بھی ایسا ہوا۔؟

خوش قسمتی سے امام کی زندگی میں ایسا نہیں ہوسکا۔ وجہ یہ کہ امام نے صحرائے کربلا میں داخل ہوتے ہی ایسے اقدامات کا سوچ لیا تھا، جو دشمن کے لشکر کو عقب تک جانے سے روک سکیں۔ امام نے سب سے پہلے خیمے نصب کرنے کے ضمن میں چند نکات کو پیش نظر رکھا۔ جنگ میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ امام نے اس کے لیے خیموں کو ایسی جگہ لگانے کا حکم صادر فرمایا، جہاں ان کے پیچھے سر کنڈے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام کی زندگی میں دشمن امام کے عقب سے حملہ کرنے میں ناکام رہا۔ "طبری" کے مطابق جب امام کربلا میں وارد ہوئے تو انہوں نے اپنی پشت کے پیچھے سرکنڈے اور تازہ پودے رکھے۔

بعض منابع میں لکھا ہے کہ امام کے اصحاب نے دریائے فرات کے قریب امام اور آپ کے خانوادے کے خیمے لگائے اور آپ کے گرد اپنے خیمے لگائے۔ امام نے ان خیموں یا سرکنڈوں کے پیچھے ایک ندی کی طرح کا گڑھا کھودنے کا حکم دیا۔ اس سے ملتی جلتی ایک کھائی بھی بنائی گئی، جس میں لکڑی اور بھوسا ڈالا گیا، تاکہ جب دشمن حملہ کرے تو انہیں آگ لگا دی جائے اور دشمن کے پیچھے سے حملہ کرنے میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ اس کے علاوہ ایک اور کام کیا گیا۔ وہ یہ کہ آپ کے ساتھیوں نے عاشورا کی رات ایک دوسرے کے ساتھ خیمے لگائے اور انہیں تین اطراف سے ایک رسی سے منسلک کر دیا گیا۔ یوں دشمن کے لیے سامنے کی جانب سے صرف ایک راستہ بچا اور وہ خیموں کے درمیان تک پہنچنے سے قاصر رہا۔

اگر امام کا لشکر اس حکمت عملی پر عمل نہ کرتا تو عمر بن سعد ملعون کا لشکر عاشورا کے دن امام کے لشکر کے عقب سے حملہ کر دیتا اور اس لشکر کو گھیر کر اسے شہید کر دیتا یا قیدی بنا لیتا۔ 10 محرم کی صبح کو جب لشکر اشقیا نے حملہ کرنا چاہا تو انہوں نے اچانک اپنے آپ کو دھویں اور آگ کے ڈھیر کے سامنے پایا۔ جس کی وجہ سے خیموں کے سامنے ان کی آنکھیں کچھ نہ دیکھ پائیں اور امام حسین ابن علی کے ساتھیوں نے اپنے دشمن کی دیر تک مزاحمت کی اور ان کی کثیر تعداد کو واصل جہنم کیا۔ اپنے دشمن کے مقابلے میں امام عالی مقام کی یہ حکمت عملی اور ان کے معرکے کا یہ انداز مقاومت اور جدوجہد کی تاریخ میں یقیناً اپنی مثال آپ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1148246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش