0
Wednesday 10 Jul 2024 20:48

ایرانی انتخابات اور صیہونی حلقے

ایرانی انتخابات اور صیہونی حلقے
تحریر: محمد عقیقی

گذشتہ انتخابات کی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کے چودہویں دور کے کامیاب انعقاد نے صیہونی حلقوں اور ان سے وابستہ میڈیا کو سخت مایوس کیا ہے۔ ایران کے 14ویں صدارتی انتخابات میں مسعود پزشکیان کی کامیابی کے بعد، بہت سے صہیونی میڈیا نے اس واقعے کی عکاسی کرتے ہوئے اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور عام طور پر "مغربی دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات میں بہتری کے امکانات"، "جوہری معاہدہ کی بحالی" اور "ایک اعتدال پسند اور اصلاح پسند امیدوار کی جیت" جیسے تصورات پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر "Haaretz" نامی اسرائیلی اخبار نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ مسعود پزشکیان 2005ء کے بعد اقتدار میں آنے والا پہلا اصلاح پسند امیدوار ہے، اور مسعود پزشکیان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ  عملی خارجہ پالیسی اپنائے گا اور جوہری معاہدے کو بحال کرے گا۔

واضح رہے کہ صیہونیوں اور ان سے وابستہ میڈیا نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ دباؤ اور ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے اور ان انتخابات میں بھی انہوں نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ ایران میں بعض اقتصادی مسائل کی وجہ سے عوام انتخابات کا خیرمقدم نہیں کریں گے، جس کی بدولت ایران پر بیرونی دباؤ میں اضافہ ہوگا اور خارجہ تعلقات بری طرح متاثر ہونگے اور اس طرح ایرانی حکومت کو علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے میں آسانی ہوگی۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے صیہونیوں اور ان سے وابستہ عناصر نے سائبر اسپیس میں ایک امیدوار کی حمایت کے نام پر مواد تیار کرکے دوسرے امیدواروں کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے کی کوشش کی۔

ملک کو دو قطبی اور تقسیم در تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہاں تک کے امیدواروں کے حامیوں کو  ایک دوسرے کے مقابلے میں سڑکوں پر لانے اور تنازعات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بہرحال جہاں دشمنوں کی انتخابات کے بائیکاٹ کی کوشش ناکام ہوگئی، وہاں دونوں صدارتی امیدواروں نے اختلافات سے اجتناب کرتے ہوئے دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ دوسری طرف ایران کے منتخب صدر نے اپنے انتخاب کے بعد اپنے موقف سے ثابت کیا کہ ایران کی میکرو اور اسٹریٹجک پالیسیاں نہ صرف تبدیل نہیں ہوں گی بلکہ مزید مضبوطی کے ساتھ جاری رہیں گی۔

اسی سلسلے میں "مسعود پزشکیان" نے لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے نام ایک پیغام میں لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ ناجائز صیہونی حکومت کے خلاف علاقے کے عوام کی مزاحمت کی حمایت کی ہے۔ مزاحمت کی حمایت اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی پالیسیوں، امام راحل (رح) کے نظریات اور رہبر معظم کے رہنماء اصولوں سے جڑی ہوئی ہے اور یہ پالیسی مضبوطی کے ساتھ جاری رہے گی۔ واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کسی بھی قسم کے تسلط کو مسترد کرتے ہوئے ملک کی ہمہ گیر آزادی اور ارضی سالمیت کو برقرار رکھنے، تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع اور استعماری طاقتوں سے عدم وابستگی پر مبنی ہے۔ ایران تسلط پسند طاقتوں کے خلاف لیکن امن پسندوں کے ساتھ بہترین تعلقات برقرار کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اچھی ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے، مزاحمت کے بلاک کی حمایت، کثیرالجہتی نظام سے ہم آہنگی، برکس اور شنگھائی جیسے بین الاقوامی میکانزم میں شمولیت کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیح قرار دیتا ہے اور اس تناظر بالخصوص خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک موزوں اور موثر پوزیشن میں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نویں صدر بھی سنجیدگی سے اس ڈاکٹرائن کی پیروی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی اور ان کے مغربی حامی بالخصوص امریکی حکومت حالیہ ایرانی انتخابات کے نتائج پر مایوسی کا شکار ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج بالخصوص انتخابات کے بائیکاٹ میں ناکامی اور مزاحمت کی حمایت سمیت خطے کے دوسرے مسائل میں ایران کے موقف میں تبدیلی نہ ہونے کے حوالے سے امریکہ کی ایک اور شکست ہے، جس کا اندازہ ان کے شکست خوردہ بیانات میں پوری طرح واضح ہے۔
خبر کا کوڈ : 1147002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش