0
Thursday 11 Jul 2024 19:55

قیام امام حسینؑ کے مقاصد اور آج کی کربلا(2)

قیام امام حسینؑ کے مقاصد اور آج کی کربلا(2)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

محرم الحرام کے مقدس و محترم مہینہ کا آغاز ہوچکا ہے، اس ماہ کی مناسبت سے ہم اکسٹھ ہجری کربلا کے تپتے صحرا میں انسانیت کی بقا، اسلام کی ابدیت اور لا الہ الا اللہ کے مقصد کے حصول کیلئے امام حسین ؑ اور ان کے باوفا اصحاب، ان کے خانوادہ عصمت و طہارت اور مرد و زنان، بوڑھوں، بچوں، خواتین کی قربانیوں کا تذکرہ سنتے ہیں، گریہ و ماتم کرتے ہیں، ان پر ظلم کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان پر لعنت ڈالتے ہیں۔ یہ غم، یہ دکھ، یہ گریہ و ماتم ہمیں بہت سے اسباق دیتا ہے، جن میں سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہم ایسے ظلم کو قبول نہیں کرتے، ہم ایسے ظالم کو قبول نہیں کرتے اور اس کے خلاف ایسے ہی سینہ سپر ہیں، جیسے مرسل اعظم ؐکی گود میں پلا حسین ابن علی ؑ اکسٹھ ہجری میں تھے۔ اس فرق کیساتھ کہ وہ اپنے دور کے فاسق و فاجر اور ظالم حکمران کے خلاف قیام کرکے ابدی حیات پا گئے اور ہم ان کے اسوہ و سیرت پر چلتے ہوئے آج کے یزیدان و ظالمان کے خلاف اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر میدان سجاتے رہینگے۔

امام حسینؑ کا قیام، دراصل فقط اکسٹھ ہجری کیلئے نہیں تھا، یزید تو اس دور کی برائی کا نمائندہ تھا، ظلم کا نمائندہ، باطل کا نمائندہ، جبکہ دوسری طرف امام حسین ؑ حق کے نمایندہ تھے۔ اپنے نانا محمد ؕؐ و بابا علی ابن ابی طالب ؑ کے اصولوں کے نمائندہ تھے، ہم اس مکتب کی نمائندگی رکھتے ہیں، جو "کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا" کی عظیم فکر رکھتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم صرف اکسٹھ ہجری کے یزید، شمر و خولی کو برا نہیں سمجھتے، ان کے مظالم کی مذمت نہیں کرتے بلکہ ہر دور میں ہم زمانے میں جہاں بھی، جس نے بھی ان اعمال کو دہرایا ہے، جو یزیدیوں نے کیے تھے تو ان کے خلاف ایسے ہی قیام کرنا فرض ہے، جیسے امام حسین ؑ نے کیا تھا۔

گذری صدی کے سب سے موثر و مرکزی کردار جسے لوگ خمینی کے نام سے پہچانتی ہے، انہوں نے ہمیں یہ درس دیا ہے، نہ صرف ہمیں دیا ہے بلکہ دنیا کے تمام پسے ہوئے، ستم رسیدہ، مظلوموں و محروں کو کربلا کی عظیم فکر اور اس کی روشنی میں اپنے اوپر مسلط، غاصبوں، ظالموں، طاغوتوں سے نجات کیلئے امام حسین ؑ کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی، اسی دعوت کے نتیجہ میں مقاومت و مزاحمت کا علم سربلند ہے۔ یمن، لبنان، شام، عراق، فلسطین، بحرین، الغرض عرب و عجم میں کربلائی فکر کے نظارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی مانند سرطانی جرثومہ اسرائیل کے خلاف پہلے سے جاری مزاحمت، حماس کے شیر دل کربلائی کرداروں نے سات اکتوبر 23ء کو طاقت، قوت، اسلحہ، افواج، ٹیکنالوجی، بدمعاشی، سرپرستوں کی ہلہ شیری کے گھمنڈ میں مبتلا اس شیطانی جرثومہ کو ایسا سبق سکھایا کہ اس کا رعب جاتا رہا۔ اس کی طاقت و قوت کا گھمنڈ خاک میں ملا ہوا ہم نے دیکھا۔

اسرائیل کی طاقت و قوت کے سامنے حماس کے مجاہدین کی تعداد اور وسائل آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کہے جا سکتے۔ یہ بہت ہی محدود پیمانے پہ برسر پیکار مجاہدین کی بہت ہی محدود وسائل کیساتھ ایسے ہی جنگ تھی، جیسے یزید کی طاقت، قوت، گھمنڈ، دولت، وسائل کے سامنے فقط بہتر کے قافلے کیساتھ امام عالی مقام ٹکرا گئے تھے اور نتیجہ کے خوف کی بجائے اپنے فرض اور اللہ کی مدد و لطف پر یقین کامل کیساتھ خود کو میدان میں اتارا تھا۔ چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد آج تک اس قیام سے درد محسوس کرنے والے امام حسین ؑ کو مورد الزام ٹھہراتے آرہے ہیں۔ ایسے ہی سات اکتوبر کے حماس حملے سے لیکر آج تک ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ، قومیں، قیادتیں، جماعتیں براہ راست حماس کی قیادت کو اس ظلم، بربریت، تباہی، تاراجی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جو اسرائیل نے ہوائی جہازوں کیساتھ بمبارمنٹ کرکے معصوم و بے گناہ فلسطینی مسلمانوں، بچوں، شیر خواروں، اسپتالوں، چوکوں، چوراہوں، پرامن آبادیوں پر کیا ہے۔

ان دس مہینوں کے درمیان کتنے معصوم پھول مرجھا گئے، کتنی بڑی تعداد میں خواتین بیوگان ہوئیں اور اپنے سرتاج اپنے بچوں کے سرپرست و آسراءوں سے محروم ہوگئیں، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آج کی اسلامی مزاحمتی، تحریکوں کو کربلا سے نہیں جوڑنا چاہیئے، کربلا اپنی جگہ ایک ایسی ہستی کا کارنامہ ہے، جس کا خاندان خانوادہ نبوت و رسالت ہے، جس کی بیبیاں اور بچے رسالت کی پرورش کردہ ہیں اور ان کا الگ ہی مقام ہے، جو بلا شبہ ایک درست بات ہے۔ چادر تطہیر کے سائے میں پلنے والوں کا کسی سے کوئی موازنہ نہیں مگر حضرت جوش کی زبانی کہ
کربلا آج بھی ہے ایک لگاتار پکار
ہے کوئی پیرویء ابن علیؑ پہ تیار


آج کی کربلا اگر ایک طرف فلسطینیوں نے سجا رکھی ہے تو دوسری طرف یمنیوں نے بھی اسے برپا کر رکھا ہے۔ ان کا کربلائی کردار بہت روشن، بہت واضح، بہت پراثر ہے، جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اّج کی کربلا لبنانی مقاومت نے بھی اپنے خون کی عظیم قربانیاں دے کر جاری رکھی ہوئی ہے۔ مقاومت لبنان نے بھی وقت کے فرعونوں، یزیدوں کے منہ پہ ایسے طمانچے مارے ہیں کہ ان کے نشان کبھی مٹ نہ سکیں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ مزاحمت کا تعلق عراق سے ہو یا فلسطین سے، لبنان سے ہو یا حجاز سے، نائیجیریا سے ہو، بحرین سے، اس علم کی علمبرداری جمہوری اسلامی ایران، اس کی ولائی قیادت و رہبری اور بنیان گذار انقلاب امام راحل کی فکر کی اساس پر ہے، جسے تمام تسلیم کرتے ہیں۔

ہمیں اس وقت سب سے زیادہ اپنی مجالس و محافل، اپنے پروگراموں، اپنے سیمیناروں، اپنے جلسوں، اپنے جلوسوں، چاہے وہ ماتمی ہوں یا عزائی، ان میں اہل غزہ کے کربلائی کردار کو اجاگر کرنا چاہیئے۔ ہمیں دودھ پیتے، بلکتے بچوں کی پردرد چیخوں کو سننا چاہیئے، ہمیں مظلوموں کی صدا بننا چاہیئے۔ اگر ہم حقیقت میں مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف ہیں تو یہی حق بنتا ہے کہ ہمیں آج کے ظالمین اور اس دور کے سب سے زیادہ مظلومین کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ سلام پیش کرتے ہیں ان مجاہدین، ان مقاومین، ان مہاجرین پر جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بنا مقاومت، مزاحمت اور حق کا پرچم بلند رکھا ہے اور سرحدوں کی پروا کیے بغیر انہیں جہاں سے بھی صدا آئی، انہوں نے لبیک کہتے ہوئے خود کو پہنچایا اور دنیا کے سامنے اپنے اس کردار سے انکار نہیں کیا، بلکہ کھل کر کہا ہے کہ ہم یہ کر رہے ہیں۔ سلام ہے فرزند زہرا، سید علی (ولی امر المسلمین امام خامنہ ای) پر کہ جو اس وقت کربلائی مقاموین و مجاہدین کی پشتبانی اور سرپرستی فرما رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1146945
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش