ہزارہ ڈویژن کے علاقہ ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والے علامہ سید وحید عباس کاظمی مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تنظیم سازی اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکے ہیں، جبکہ کچھ عرصہ انکے پاس ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے عبوری سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بھی رہی۔ گذشتہ سال وہ باقاعدہ طور پر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ وہ ایک فعال اور متحرک تنظیمی رہنماء کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، خوش اخلاق اور نرم طبعیت کے مالک انسان ہیں، اسلام ٹائمز نے علامہ سید وحید عباس کاظمی کیساتھ صوبہ کے حالات سمیت مختلف امور پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: کراچی سٹاک ایکسچینج پر دہشتگردوں کا حملہ، کہیں دہشتگرد دوبارہ منظم تو نہیں ہو رہے۔؟
علامہ وحید کاظمی: بسم اللہ الرحٰمن الرحیم، یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے، درحقیقت دہشتگردوں نے ایک مرتبہ پھر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے، کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، وہاں کی معاشی سرگرمیوں کے مرکز کو نشانہ بنانے کا مقصد دہشتگردوں کی جانب سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ حکومتی وزراء کے مطابق اس کارروائی میں ہندوستانی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے اور درحقیقت اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری فورسز نے دہشتگردوں کے اس حملہ کو ناکام بنایا، جانی نقصان پر ہمیں بہت افسوس ہے، لیکن حکومت کو اس حوالے سے چوکنا رہنا ہوگا۔ ابھی ملک کورونا کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے، ایسے میں دہشتگردوں کا دوبارہ سر اٹھانا خطرناک ہوسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب دیکھنے میں آرہا ہے کہ ملک میں وقفہ وقفہ سے فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں، کبھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کے مسئلہ کو لیکر تو کبھی مولوی اشرف جلالی جیسے کردار سامنے آرہے ہیں، پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ وحید کاظمی: اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض نادیدہ قوتوں کی کوشش ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی طرح افراتفری پھیلائی جائے، ملک میں دہشتگرد اور فرقہ پرست ایک مرتبہ پھر منظم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کو ایسے عناصر پر نظر رکھنی چاہیئے کہ کونسے ایسے عناصر ہیں، جو ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ حکومت کی جانب سے اب تک اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مختلف فورمز پر ایک ساتھ ہیں اور ان حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن اصل ذمہ داری حکومت کی ہے، اگر حکومت نے ڈھیل دی تو حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ علماء اس صورتحال میں متحد ہوکر فرنٹ پر آئیں اور چیزوں کو کلیئر کریں، لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آیا، کیا وجہ ہے۔؟
علامہ وحید کاظمی: اس حوالے سے مختلف علمائے کرام کے آپس میں مرکزی سطح پر رابطے ضرور ہیں، ملی یکجہتی کونسل بھی معاملات کو دیکھ رہی ہے، امید ہے کہ علماء اس حوالے سے رول ادا کریں گے اور کر بھی رہے ہیں، لیکن میں نے عرض کی کہ اصل کام حکومت کا ہوتا ہے، لیکن حکومت اتنے مسائل میں گھری ہوئی ہے کہ شائد اس کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ لیکن یہ حساس معاملات بھی حکومت کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہئیں۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار میں حالات کچھ بہتر نظر نہیں آرہے، دہشتگردی کے واقعات بھی ہو رہے ہیں اور بالشخیل میں لڑائی بھی جاری ہے، کیا کہیں گے۔؟
علامہ وحید کاظمی: آج دوسرا دن ہے، پاراچنار کے علاقہ بالش خیل میں قبائل کے مابین لڑائی جاری ہے اور مقامی دوستوں کے مطابق جانی نقصان بھی ہوا ہے، ہم نے اس حوالے سے بہت عرصہ قبل حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ اس حوالے سے فوری ایکشن لیا جائے، یہ نہ ہو کہ 2007ء والے حالات پیدا ہو جائیں، مگر معلوم نہیں کہ کیوں اب تک اس مسئلہ کو لٹکا کر رکھا گیا ہے۔ وہاں ہمارے لوگوں کو شدید تحفظات ہیں اور حکومت کی بے حسی پر حیران بھی ہیں، اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو حالات ماضی کی طرف جاسکتے ہیں۔ زمینوں کے مسائل کو جنگ کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ ہم آپ کے فورم سے حکومت سے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ پر فوری نوٹس لے اور مسئلہ حل کرائے۔
اسلام ٹائمز: بالشخیل کا مسئلہ تو کافی پرانا ہے، اسکا حل کیا ہے۔؟
علامہ وحید کاظمی: اس کا واحد حل کاغذات مال کی روح کے مطابق زمینوں کی تقسیم ہے، ہمارے لوگ تو عرصہ دراز سے کہہ رہے کہ کاغذات مال کے مطابق اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ کسی اور کی زمین ہمارے لوگوں کو دی جائے، نہ ہی ہمارے لوگ ایسا چاہتے ہیں، بلکہ جو جس کا حق ہے، اسے دیا جائے۔ قبائل کے مزاج سے آپ واقف ہیں، وہ اپنا حق کسی کو نہیں چھیننے دیتے۔ طوری قبائل کی زمینیں کاغذات مال کے مطابق ان کے حوالے کی جائیں اور یہی اس کا پرامن حل ہے۔ مقامی سول اور عسکری انتظامیہ اس حوالے سے اپنا رول ادا کرے اور جتنا جلدی ممکن ہو، حقداروں کو ان کا حق دیا جائے۔ اس حوالے سے ہمارے مقامی قائدین بھی گاہے بگاہے حکومت کو متوجہ کرتے رہے ہیں، گذشتہ دنوں پاراچنار میں دھماکہ ہوا اور زمین کا مسئلہ۔ پاراچنار کے لوگوں کو شدید تشویش ہے، وہ پریشان ہیں کہ کیونکہ ان پر دوبارہ زمین تنگ کی جا رہی ہے۔