اسلام ٹائمز۔ غزہ کے خلاف جنگ کے حوالے سے صیہونی حکومت کے اعلان کردہ اہداف اور نتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے، عبرانی اخبار ھارتز نے لکھا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ معاہدے کی اسرائیل کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ کئی مہینوں تک غزہ کی پٹی میں مکمل فتح کے دعویے کرنیکے بعد یہ معاہدہ اسرائیل کو حماس کے خاتمے سمیت جنگ کے اہداف کو ترک کرنے کا سبب بنے گا، اور حماس ایک بار پھر فلسطینیوں کے درمیان اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے گی۔
اخبار کے تجزیہ کار نے زور دے کر کہا ہے کہ نتن یاہو نے پہلے بھی غزہ کی پٹی، مصر سرحد پر واقع فلاڈیلفیا (صلاح الدین) محور سے دستبرداری کی مخالفت کی تھی، لیکن موجودہ معاہدے میں اس کراسنگ سے دستبرداری پر زور دیا گیا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صرف فوجی دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا نیتن یاہو کا دعویٰ بے بنیاد تھا۔ وائٹ ہاؤس کی نئی انتظامیہ کے سامنے اپنی گھبراہٹ کو ظاہر کرتے ہوئے، بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے سخت گیر حکمرانوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے سرطانی ٹیومر کا اپنا آزاد سیاسی، قومی، ادارہ جاتی یا حتیٰ سماجی شناخت سمیت کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔
حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں بیت عقیون کے دیوانے کا لہجہ سنجیدہ ہوتے ہی صیہونی حکومت کو بیک وقت 5 محاذوں پر رسوائی کا سامنا ہے:
1۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف 16 ماہ تک جاری رہنے والی نسل کشی کی جنگ کے بعد معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ 8 دہائیوں میں پہلی طویل فوجی مہم کی ناکام ہوئی ہے۔
2۔ لیکود پارٹی کا رہنما نیتن یاہو اے آئی پی اے سی لابی میں ایک طاقتور امیج رکھنے کے باوجود عملی طور پر ایک مغربی سیاسی پیادے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور معاریف کے مشہور اسرائیلی تجزیہ کار بین کاسپیت کے مطابق وہ امریکی طاقت کے مرکز سے بے حد خوفزدہ ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص پر اعتماد کر رہے ہیں۔
3۔ غاصب حکومت خطے میں امریکہ کے پاگل کتے کے سوا کچھ نہیں ہے اور جیسے ہی واشنگٹن سے اسرائیل کی لگام کھینچنے کا فیصلہ کیا جائے گا، وہ جنگ میں جتنی جلدی داخل ہو گی اتنی جلدی سے اسے ختم بھی کر دے گی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی استعمار امریکہ کے نزدیک غاصب اسرائیلی ریاست صرف ان کی ایک کالونی ہے۔
4۔ نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد کرنے والے انتہا پسند یا اپوکیلیپٹک صیہونیوں نے، جن کا اقتدار میں رہنا غزہ کی جنگ کے تسلسل سے جڑا ہوا ہے، نے واضح طور پر واشنگٹن کی طرف سے جنگ بندی کے حکم کی مخالفت کی ہے، جو کہ کنیسیٹ میں کمزور حکمران اتحاد میں دراڑ ہے۔ ان دھڑوں کے درمیان یہ شگاف واضح کرتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین پر غاصب رجیم اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔
5۔ محاصرے شدہ ایک چھوٹی سی پٹی میں فلسطینیوں کیخلاف جارحیت، نسل کشی اور اسے کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے مغربی شراکت داروں کی بھرپور حمایت کے باوجود بھی صیہونی اپنے حتمی مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جس کا مقصد نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری عالمی برادری میں مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا تھا۔ فطری طور پر مسئلہ فلسطین برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ اس مغربی استعماری کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مزاحمت بھی مضبوط ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، قابض حکومت کے خلاف مزاحمت کے طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔