پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور احمد سیاسی و قومی امور پر پارٹی کے مضبوط وکیل اور ابلاغ عامہ کے ماہر لیڈر ہیں۔ کرونا وائرس کی وباء کیوجہ سے پیدا ہونیوالی مشکلات، حکومتی اقدامات اور اپوزیشن کیطرف سے پیش کی گئی تجاویز سمیت موجودہ سیاسی صورتحال میں ایم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: کیا جہانگیر ترین کے جانے کے بعد اپوزیشن سمیت سیاسی جماعتوں کیساتھ حکومت بچانے اور ڈیل کرنے کیلئے اسد عمر اٹھارویں ترمیم پر مذاکرات کر رہے ہیں۔؟
چوہدری منظور احمد: جب سے یہ حکومت آئی ہے انکا یہی وطیرہ ہے کہ اپنی نااہلی سے توجہ ہٹانے کیلئے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، اب تو ان کے وزراء کی کرپشن سامنے آنا شروع ہو گئی ہے تو یہ ایک بار پھر اٹھارویں ترمیم پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔ اب یہ لوگ اٹھارویں ترمیم کو ایک ناسور قرار دے رہے ہیں، حالانکہ ہمارا موقف یہ تھا کہ اس پر بحث کی جا سکتی ہے، لیکن کی باتوں سے یہ چیز کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ ہر ایسی شق کو یہ روند دینگے اور صوبائی خودمختاری کو ختم کر کے رکھ دینگے۔ جو آئین کی روح کیخلاف ہے، جس سے وفاق کا کھڑے رہنا مشکل ہو جائیگا، انہیں یہ سب معلوم ہے، اب یہ اس طرح کی اختلافات کو اس لیے ہوا دینا چاہتے ہیں کہ جتنے حساس ایشوز کو اٹھائیں گے اتنا انکی حکومتی کمزوری اور ناکامی پر پردہ پڑا رہیگا، جو کہ ملک اور قوم دونوں کیساتھ مذاق ہے۔ آٹا، چینی کے اسکینڈلز کیطرح کرونا وائرس کے متلعق ناقص اور کمزور پالیسی اور حکمت عملی نے انکا پول کھول دیا ہے۔ لیکن یہ اب نان ایشوز کو سامنے لاکر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔
اسلام ٹائمز: کرونا وائرس کے حوالے سے تو پاکستان میں توقعات اور خدشات سے کم کیسز آئے ہیں، اسکے باوجود یکجہتی دکھانے کی بجائے حکومت کیخلاف تنقید کا کیا جواز ہے۔؟
چوہدری منظور احمد: اللہ کرے، یہ کیسز کم ہوں اور اس وباء سے تمام انسانیت اور اقوام کو چھٹکارا ملے، لیکن موجودہ حکومت کے پاس نہ اس مسئلے کیلئے سنجیدگی ہے، نہ کوئی طریقہ کار۔ یہ ایک المیہ ہے، اس کے باوجود انہوں نے میڈیا پہ واویلا مچایا ہوا ہے کہ کرونا وباء کے انسداد کیلئے حکومت کام کر رہی ہے، حالانکہ حکومت نے تو نہ صرف صوبوں کو بلکہ تاجروں، ٹرانسپوٹروں، مزدروں، دہاڑی داروں، دکانداروں اور عوام کے ہر طبقے کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ ایک رف وزیراعظم نے کہا کہ یہ وائرس بہت خطرناک ہے، کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کتنی تیزی سے پھیلے گا اور کب تک پھیلتا رہیگا، یہ شروع سے کہہ رہے تھے کہ ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسکی پیک کب آئیگی، ایک طرف عمران خان نے کہا کہ اگر یہ تیزی آگئی تو ہمارا ہیلتھ سسٹم اسکا دباؤ برداشت نہیں کر پائیگا۔
دوسری طرف انکے وزراء اور گورنر صاحب نے کہا بلکہ ٹوئٹ کیا کہ کرونا وائرس سے زیادہ اپوزیشن کی سیاست تباہی کا باعث بن رہی ہے، حالانکہ ڈاکٹرز یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے کہ حکومت، میڈیا اور عوام کو آگاہ کریں کہ اگر لاک ڈاون ختم ہوتا ہے تو اس کے بعد کیا تباہی سامنے آ سکتی ہے، یہ تو صرف گورنر سندھ اور عمران خان کے موقف میں اتنے زیادہ تضاد کی بات ہے، یہی حال تمام حکمران جماعت اور حکومت کا ہے۔ یہ کنفیوز بیانات ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ وفاقی حکومت نہ اس مسئلے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس قابل ہے کہ اس معاملے میں عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے کوئی اقدامات کر سکیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ تضاد اور کمزوری کو اپوزیشن کے سر تھونپنے کے علاوہ کام ایسا ہی چلتا رہا تو یہ بہت بڑے قومی سانحے کا سبب بن جائیگا۔
اسلام ٹائمز: گورنر سندھ تو خود اس وائرس کا شکار ہیں، انکے بیانات کو کیسے اس بات کو جواز بنایا جا سکتا ہے کہ حکومت غیر سنجیدہ ہے۔؟
چوہدری منظور احمد: انہوں نے جو کہا ہے وہ مکمل طور پر درست نہیں، پھر وہ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور اگر وہ کہتے ہیں کہ یہ عام فلو کی طرح ہے تو عام آدمی اس سے کیا سمجھے گا کہ اس وائرس سے بچنے کیلئے اور دوسروں کو بچانے کیلئے کسی قسم کی احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ یہ فلو نہیں، لیکن یہ پانچ سات دنوں میں ٹھیک ہونے والی بیماری بالکل نہیں ہے، آپ دیکھیں ایسا ہی رویہ امریکی صدر نے اپنایا اور اس وجہ سے لوگوں نے امریکہ میں وائرس کی وباء کو سنجیدہ نہیں لیا، نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا، اگر امریکی صدر ٹرمپ اس طرح مذاق نہ اڑاتے تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہاں احتیاط کی جاتی اور بہت ساری جانیں بچ جاتیں، یہ ممکن تھا۔ بدقمستی سے ہمارے ہاں بھی یہ رویہ ہے حکمران جماعت کا، اس نئے وائرس کو عام فلو کہہ دینا اور کبھی یہ کہنا کہ لاک ڈاون کیوجہ سے لوگ بھوک سے مر جائیں گے، اور وائرس کی وجہ سے نہیں مریں گے، یہ سب باتیں ایک ہی طرح کا اثر ڈالتی ہیں عوام پر اور وہ ہے، وائرس سے بچاؤ اور اسکا پھیلاؤ روکنے کیلئے احتیاط نہ کرنا۔
یہ عام فلو نہیں ہے، اس کی ابھیدو تین ماہ میں ماہرین کہہ رہے ہیں کہ تیس سے زیادہ قسمیں سامنے آ چکی ہیں، یہ پہلے والے وائرس جو تھے انکی طرح بالکل نہیں ہے۔ ابھی تک سائنس دان یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ جو وائرس کی قسم پاکستان میں آئی ہے، یہ وہی ہے جو چین میں ہے یا نہیں، کسی بھی ذمہ دار شخص کو بالخصوص حکومتی ذمہ دار ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے یہ تاثر عام ہو کہ یہ زیادہ خطرناک اور مہلک نہیں ہے۔ سنجیدگی نہ ہونے سے یہی مراد ہے کہ یہ کسی طرح حکومت میں تو آ گئے ہیں لیکن انہیں یہی معلوم نہیں کہ یہ کس قدر ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے، اور جب آپ حکومت میں ہیں تو عوام آپ کی ہر بات کو زیادہ سنجیدہ انداز میں لیں گے، بالخصوص جب انہیں ایک طرف بیماری اور دوسری طرف بھوک اور افلاس نظر آ رہا ہو۔
اسلام ٹائمز: کیا حساس ترین ماحول میں صرف شور مچانے اور حکومت کیخلاف الزام تراشی کرنے سے معاملات سلجھ سکتے ہیں؟ کیا حکومت کیساتھ اختلافات بھلا کر تعمیری کردار ادا نہیں کیا جا سکتا۔؟
چوہدری منظور احمد: ایسی صورتحال میں جس قدر سنجیدگی درکار وہ کہیں نظر نہیں آ رہی، اور صورتحال جس طرح سنگین ہے اس میں اس بات کیطرف متوجہ کرنا کوئی الزام تراشی نہیں بلکہ یہ وقت کا تقاضا ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ یہ لوگ تو سرعام کہہ رہے ہیں کہ دکھاؤ کرونا کہان ہے، اب زیادہ پریشانی والی بات یہ ہے کہ جب یہ تاجروں اور دوسرے طبقات کیساتھ مل کر میٹنگز کرتے ہیں تو وہاں یہ انہیں کیا کہتے ہونگے، کس طرح انہیں ڈیل کرتے ہونگے، اتنی زیادہ سطحی سوچ اور اپروچ کیساتھ مشکلات حالات میں گھرے لوگوں کو سمجھانا اور کسی نکتے پر لے آنا ان کے بس میں نہیں، اس سے یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ ملک میں جیسے جیسے اس وباء کے اثرات پھیلنا شروع ہونگے، لوگوں کی پریشانی اور بے چینی میں اضافہ ہوگا، حکمران کا کام اور ذمہ داری ہوتی ہے کہ اقدامات کرے جس سے لوگوں کو اطمینان حاصل ہو، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، تو پھر کیا ہوگا، عین ممکن ہے ہمارا ملک انکی نااہلی کیوجہ سے انارکی کا شکار ہو جائے، براہ راست ریاستی ادارے بھی اس افراتفری کو قابو نہ کر سکیں۔
ہمارے ہاتھ میں تو عنان حکومت نہیں ہے، اگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم بات کر سکتے ہیں، توجہ دلا سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں، دہائی دے سکتے ہیں، لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ یہاں یہاں جو کچھ ہو سکتا ہے وہ نہیں ہو رہا ہے، جو لوگ بھی ہوں حکومت میں انہیں توجہ دلانے کا یہی طریقہ ہوتا ہے، موجودہ حکومت اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے کیلیے تو تیار نہیں نہ ہی بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب بھی حکومت کے قوم و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے، پہلے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کرونا وائرس سے متاثر ہوتا بھی ہے تو ان میں سے 98 فیصد لوگ صحتیاب ہو جاتے ہیں، لیکن اب بھی یہ دو کشتیوں پہ سوار ہیں کہ ایک طرف قوم کو کہہ رہے ہیں کہ لوگ ڈسپلن کا مظاہرہ کریں یہ خطرناک ہے، دوسری طرف بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم لاک ڈاون ختم کر رہے ہیں، اس سے کسی کو بھی کچھ بھی نہیں سمجھ آ رہا۔
اسلام ٹائمز: تاجر اور کاروباری حضرات ہی نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پہ کمانے والے کروڑوں لوگ بھی پریشان ہیں، انکا مطالبہ ہے کہ لاک ڈاون ختم کیا جائے، اسکا جواب دینا اور اقدام کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، آپکے پاس اسکا کیا متبادل ہے۔؟
چوہدری منظور احمد: اس میں بھی وہی صورتحال ہے کہ حکمرانوں کے پاس اسکا کوئی ایک جواب نہیں ہے، بلکہ کوئی ایک بات سامنے نہیں آئی، پہلے انہوں نے کہا کہ کچھ سیکٹرز کو کھولیں گے، کچھ نہیں کھولیں گے، جیسے انہوں نے پہلے تعمیراتی شعبے کی بات کی، لیکن وہ مکمل پالیسی نہیں تھی، وہاں کوئی کام بھی نہیں ہو رہا، نہ کوئی ایس او پیز سامنے آئے ہیں، کیونکہ اس سے منسلک جو درجنوں شعبے ہیں وہ نہیں کھولے جا سکتے، پھر اس سے وائرس کے پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ سکتا ہے تو عام آدمی کو کیا سمجھ آیا کہ وہ کہاں جائے، گھر میں بیٹھ نہیں سکتا، کام پہ جا سکتا، حکومت کوئی ایک بات کر نہیں رہی، تو جو لوگ حکومت سے باہر ہیں اور انہیں بات کرنیکی اجازت نہیں، اگر بات کی جاتی ہے تو حکومتی وزراء مذاق میں اڑا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاست کرونا سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ایک مذاق ہے، کوئی واضح پیغام نہیں ہے، ہمارا موقف یہی ہے کہ حالات کو مل کر سنبھالنا ہوگا، لاک ڈاون ختم کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی، دباؤ آئیگا لیکن تاجروں کو سمجھانا ہوگا کہ احتیاط نہیں برتی جا سکتی، قومی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، سب مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔
سو فیصد لاک ڈاون کسی بھی صورت میں ختم کرنیکا وقت نہیں آیا، اس کی وجہ سے جو معاشی اور سماجی مشکلات آتی ہیں، انکا مقابلہ کرنے کی تدابیر اختیار کرنیکی ضرورت ہے۔ اس وقت جب مریضوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے ڈبل ہو رہی ہے تو کسی بھی طرح یہ درست نہیں اس میں نرمی اختیار کی جائے۔ اسکا اصول تو یہی ہے کہ جب وائرس سے متاثریں کی تعداد بڑھ رہی ہو تو لاک ڈاون کو سخت رکھا جائے، اور جب وائرس سے بیمار ہونے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہو اور بالکل ختم ہونے کے قریب کہی جا سکتی ہو تو لاک ڈاون میں نرمی کی جائے، بالکل ختم کرنیکی ابھی تک کوئی پالیسی کہیں بھی سامنے آئی۔ جب تک موثر لاک ڈاون رہا ہے، صرف بیس تک کیسز سامنے آ رہے تھے، آج کیا ہے، آج روزانہ چھ سو، سات سو کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ نرم نہیں کرنا چاہیے۔ اب جب یہ تعداد ہر آنے والے دن دگنی ہو رہی ہے، اب آج ہیں چھ سو تو ہفتے بعد ہونگے بارہ سو اور اس اگلے ہفتے ہونگے چوبیس سو، لاک ڈاون نرم کرینگے تو تین ہفتے بعد ممکن ہے روزانہ اڑتالیس سو کیسز سامنے آنا شروع ہو جائیں۔ یہ حقائق ہیں، ان سے کیسے آنکھیں چرا سکتے ہیں، یہ کہہ دینا کہ اپوزیشن سیاست کر رہی کسی مرض کی دوا نہیں، آنکھیں کھولنے اور ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہ اسقدر بے حس ہیں کہ کہہ رہے کہ اس سے زیادہ لوگ تو ٹریفک کے حادثات میں مر جاتے ہیں، لوگوں کے بچے اور ماں باپ فوت ہو رہے ہیں اور صحافیوں کو لاجواب کرنیکے لیے اتنی سنگدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں لوگ مر رہے ہیں ٹھیک ہے، لیکن ہر حکومت نے اس کے لیے ٹریفک سیفٹی اور ٹریفک پولیس کو ختم تو نہیں کر دیا کہ یہ معیشت پر بوجھ ہے، وہ لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے اسی طرح کام کر رہے ہیں، اسی طرح لاک ڈاون میں نرمی کیے بغیر لوگوں کیلئے زندگی کا سامان فراہم کرنا ہی تو حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم مانتے ہیں کہ یہ کام اکیلے حکومت کیلئے ممکن نہیں، پوری قوم کو مل کر کرنا ہوگا۔ یہ حکومت کیلئے کوئی ایک آپشن نہیں بلکہ ہر حکومت کا فرض ہے کہ لوگوں کی جانوں کی حفاظت کا بندوبست کرے اور جانوں کو خطرات لاحق ہوں تو ان کو ختم کرے۔