علامہ سید وحید عباس کاظمی کا بنیادی تعلق ہزارہ ڈویژن کے علاقہ ضلع ہری پور سے ہے، وہ مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تنظیم سازی اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکے ہیں، جبکہ کچھ عرصہ انکے پاس ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے عبوری سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بھی رہی۔ گذشتہ برس وہ باقاعدہ طور پر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ وہ ایک فعال اور متحرک تنظیمی رہنماء کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، خوش اخلاق اور نرم طبعیت کے مالک انسان ہیں، اسلام ٹائمز نے علامہ سید وحید عباس کاظمی کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: کورونا ایمرجنسی کے باعث ایم ڈبلیو ایم کا ذیلی شعبہ المجلس ڈیزاسٹر منیجمنٹ سیل وجود میں آیا، اس پلیٹ فارم سے خیبر پختونخوا میں اب تک ریلیف اور عوامی فلاح کے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔؟
علامہ وحید کاظمی: صوبہ کے مختلف اضلاع میں ہماری جماعت کے کارکنان نے عوام میں راشن، سینیٹائزرز، فیس ماسک اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء تقسیم کیں اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد اور امام بارگاہوں میں جراثیم کش سپرے کئے گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں مرکز کے تعاون سے تقریباً تین لاکھ کا راشن مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا، اس کے علاوہ پاراچنار، پشاور، مانسہرہ، ایبٹ آباد، نوشہرہ، لکی مروت، بنوں، ٹانک، چارسدہ اور مردان میں بھی مستحقین میں راشن تقسیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ سو مستحق علمائے کرام میں بھی دو، دو ہزار روپے بھی تقسیم کئے گئے۔
اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں گذشتہ دو ہفتوں میں کورونا کافی تیزی سے پھیلا ہے، ایک جانب حکومت سے مطالبات کئے جاتے ہیں کہ لاک ڈاون میں نرمی کی جائے، جب نرمی ہوتی ہے تو کیسز زیادہ رجسٹرڈ ہوتے ہیں، اسکا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں۔؟
علامہ وحید کاظمی: میں سمجھتا ہوں کہ اس میں عوام اور حکومت دونوں کسی نہ کسی طرح قصوروار ہیں، ظاہر ہے کہ جب مکمل لاک ڈاون ہوا تو لوگ فاقوں پر مجبور ہوگئے، حکومت کی اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں تھی، جب حکومت نے صوبہ میں لاک ڈاون میں نرمی کی ہے تو بازاروں میں یک دم عوام کا رش بڑھ گیا ہے، حالانکہ ابھی لوگوں نے عید کی خریداری شروع نہیں کی۔ سڑکوں پر ٹریفک بھی کافی بڑھ گئی ہے، اس حوالے سے حکومت کو سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری جانب عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ احتیاط کا دام ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں۔ اگر حکومت لوگوں کے معاشی مسائل اور انکے کھانے پینے کے انتظامات کرتی اور پھر بیشک سخت لاک ڈاون کیا جاتا تو صورتحال بہتر ہوتی۔
اسلام ٹائمز: صدر اور وزیراعظم کی علمائے کرام کیساتھ ملاقاتوں کے دوران جو ایس او پیز تیار کی گئی ہیں، اس پر خیبر پختونخوا میں کس حد تک عملدرآمد ہو رہا ہے۔؟
علامہ وحید کاظمی: جہاں تک نماز باجماعت کا مسئلہ ہے تو ہماری فقہ کے مطابق چھ فٹ کے فاصلہ سے ہماری باجماعت نماز نہیں ہوسکتی، اس وجہ سے میری اطلاعات کے مطابق ہمارے صوبہ میں کہیں بھی ہماری مساجد میں باجماعت نماز نہیں ہو رہی۔ کہیں ہو بھی رہی ہے تو وہ انتہائی محدود پیمانے پر ہیں۔ اگر میں دیگر مکاتب فکر کی بات کروں تو دیکھنے میں آرہا ہے کہ تروایح وغیرہ کے مواقع پر ان ایس او پیز کی بعض جگہ پر خلاف ورزی ہو رہی ہے، بڑی تعداد میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پولیس نے کئی مقامات پر چھاپے بھی مارے ہیں، لوگوں کو پکڑا ہے، عوام کو اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اسلام ٹائمز: کورونا ایمرجنسی نافذ ہونے سے لیکر اب تک حکومتی اقدامات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ وحید کاظمی: حکومت کی طرف سے شروع میں اچھے اقدامات کئے گئے، اگر ایک مکتب کے عنوان سے دیکھیں تو زائرین کے معاملہ پر ہمارے لوگوں کے ساتھ بہت زیادتی بھی ہوئی، تاہم ہمارا کوئی بھی زائر اب تک الحمد اللہ کورونا کی وجہ سے جاں بحق نہیں ہوا اور لوگ گھروں کو بھی چلے گئے۔ حکومت کی جانب سے عوام کی امداد کا جو پروگرام شروع کیا گیا، وہ کافی خوش آئند ہے، لیکن اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ شروع میں حکومت ایکٹیو نظر آئی، شائد بعد میں محدود وسائل کیوجہ سے حکومت کیلئے شروع والے اقدامات کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری جانب اپوزیشن نے اس معاملہ کو بھی سیاست کا شکار کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ حکومت کو خاص طور پر رمضان المبارک میں بے روزگار ہونے والے خاندانوں کی طرف توجہ دینی ہوگی، کیونکہ ممکن ہے کہ کورونا سے قبل کئی خاندان جو کہ معاشی لحاظ سے مطمئن ہوں، تاہم اب وہ غربت کی لیکر سے نیچے سفر کر رہے ہوں، ایسے خاندانوں کی طرف خصوصی توجہ دینے اور ان کے مسائل فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک شخص نے اسرائیلی پرچم لہرایا، پاکستان جیسا ملک، جو اس ناجائز ریاست کو تسلیم نہیں کرتا، اس مسئلہ کو لیکر حکومت یا مذہبی جماعتوں کیجانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا، کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
علامہ وحید کاظمی: یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اکثر سامنے آتا رہا ہے، کبھی بعض سیاسی شخصیات کی جانب سے بیان سامنے آتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے، کبھی خاموشی ہو جاتی ہے پھر کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو لیکر کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ حالیہ واقعہ اسی چیز کا تسلسل ہے کہ یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر زندہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس موقف کے پاکستان میں کچھ حامی بھی ہونگے، پھر اسرائیل کے حق میں بھی باتیں ہونگی۔ لیکن اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی طرح کا نرم گوشہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اسلام کیلئے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس معاملہ کو میڈیا نے نہیں اٹھایا، کم از کم مذہبی جماعتوں کو اس پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیئے تھا۔ ممکن ہے کہ لاک ڈاون اور کورونا کیوجہ سے یہ معاملہ دب گیا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس پر حکومت کا بھی سخت ردعمل آنا چاہیئے تھا، کیونکہ اس سے قبل بھی اس قسم کی حرکتیں ہوتی رہی ہیں، جو ناقابل برداشت ہیں۔ البتہ یوم القدس کے موقع پر ان شاء اللہ ہماری جانب سے اس کی بھرپور مذمت کی جائے گی اور آواز بلند ہوگی۔
اسلام ٹائمز: ایک جانب اب تک امریکہ کورونا سے سب سے زیادہ متاثر نظر آرہا ہے، دوسری جانب امریکہ کو اسکا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، کیا یہ دو متضاد باتیں نہیں۔؟
علامہ وحید کاظمی: اس حوالے سے اب تک بیانات، الزامات اور تردید کا سلسلہ جاری ہے، دوسری بات یہ کہ جو عالمی سطح پر استعماری سازشیں اور پالیسیاں ہوتی ہیں، وہ عام آدمی کی سوچ سے بالاتر ہوتی ہیں، ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ امریکہ میں کورونا سے نقصانات محض پروپیگنڈا ہے، ممکن ہے کہ امریکہ اپنا تھوڑا نقصان کرکے زیادہ بڑا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
اسلام ٹائمز: ایک طرف اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے کورونا کو عالمی وبا قرار دیکر اس سے ملکر لڑنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب اس وبا سے متاثرہ ملک ایران کو بالکل آئسولیٹ کرنیکی کوشش کی جاتی ہے اور بجائے کسی قسم کی مدد کے، الٹا امریکہ کیجانب سے مزید ہابندیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، کیا یہ دہرا معیار نہیں۔؟
علامہ وحید کاظمی: آپ کو معلوم ہے کہ یو این او وغیرہ تو استعماری ادارے ہیں، ان سے آپ خیر کی توقع نہیں کرسکتے، کسی نے اس صورتحال کی بہت خوبصورت تشریح کی تھی کہ جیسے امام حسین علیہ السلام کربلا میں شہزادہ علی اصٖغر علیہ السلام کو میدان جنگ میں لیکر گئے اور پانی مانگا، امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ وہ پانی نہیں دیں گے، تاہم امام علیہ السلام کے پانی طلب کرنے نے یزیدی فوج کے چہروں سے نقاب اتار دی۔ اسی طرح ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف کا یہ بیان سامنے آیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ پابندیاں نہیں ہٹائیں گے، لیکن اس سے امریکہ کے چہرے سے نقاب اتر گئی۔ کم از کم دنیا میں یہ پیغام تو پہنچ گیا ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کی بات کرکے دھوکہ دیتا ہے، اس کا اصلی چہرہ بھیانک ہے۔ اس سے ایران کو فائدہ یہ ہوا کہ مختلف ممالک میں عوامی سطح پر رائے ایران کے حق میں ہموار ہوئی۔