0
Wednesday 5 Feb 2025 12:15

حماس کی بہترین حکمت عملی

حماس کی بہترین حکمت عملی
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

غزہ جنگ بندی کے بعد سے مسلسل کچھ عناصر غزہ جنگ بندی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر پردہ پوشی کرنے کے لئے حماس اور فلسطینی عوام کے خلاف منفی پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ایک پاکستانی صوفی پیر مدثر شاہ نے تو اسرائیل پہنچ کر اپنی نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا اور فلسطینی نہتے عوام کو قتل کرنے والے صیہونی فوجی کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ ایسا ہی حال کچھ پاکستان میں موجود نام نہاد دانشوروں اور مادہ پرستوں کا ہے کہ جو غزہ کی جنگ بندی کے بعد سے مسلسل اس مشن پر لگے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح فلسطینی عوام کے حوصلوں اور استقامت کو ناکام اور شکست خوردہ ثابت کیا جائے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے، کیونکہ دنیا کے سامنے طاقت اور تکبر کی علامت سمجھی جانے والی امریکی حکومت اور اس کی کاسہ لیس مغربی اور برطانوی حکومتیں سب کی سب غزہ میں فلسطینی مزاحمت کے سامنے بے بس ہوچکی ہیں اور پندرہ ماہ میں انسانی نسل کشی کے سوا انہوں نے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود امریکی و صیہونی ایجنٹوں کا کہنا بھی یہی ہے کہ کہ پچاس ہزار لوگ مروا کر کون سی کامیابی حاصل کی ہے۔؟ اب یہاں ان سب سے ایک ہی سوال ہے کہ کیا بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا جنگ میں کامیابی کی علامت ہے۔؟ کیا بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد میں نسل کشی کسی کے جنگ میں شکست کھا جانے کی دلیل ہے۔؟ یقیناً اگر کوئی امریکی و صیہونی وفاداری کے بغیر جواب دے گا تو جواب نفی میں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غزہ کے عوام اور ان کی استقامت اور مزاحمت کامیاب ہوگئی ہے۔ اب آئیے چند ایک نقاط کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ جن نقاط نے نہ صرف غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ پوری دنیا کی فوجی طاقتوں اور دفاعی حکمت عملی بنانے والے ماہرین بھی اپنے دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں۔

جنگ بندی کے آغاز پر ہی حماس نے یہ ثابت کیا ہے کہ حماس ایک ایسا ادارہ ہے کہ جو مکمل صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ دشمن کے ساتھ میدان جنگ میں کس طرح ڈیل کرے اور پھر جنگ بندی کے بعد کس طرح ڈیل کیا جائے گا۔ یعنی منصوبہ بندی اور وہ بھی ایک بہترین منصوبہ بندی، جو حماس کی بلوغیت کی ایک بڑی دلیل ہے۔ حماس نے ثابت کیا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک ان کی حکمت عملی درست ثابت ہوئی ہے، کیونکہ حماس نے کہا تھا کہ ہم قیدیوں کا تبادلہ کئے بغیر کوئی جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کریں گے اور آخرکار امریکہ اور اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ وہ حماس کی شرائط پر جنگ بندی کو تسلیم کریں۔ حماس نے جنگ بندی کے بعد سب سے پہلے جو عمل دکھایا ہے، وہ یہ ہے کہ ہزاروں نوجوان اپنی فوجی وردیوں میں ملبوس سڑکوں پر نظر آئے ہیں اور قیدیوں کے تبادلے کے لئے اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

حماس نے پراپیگنڈا وار میں اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ یعنی غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد حماس نے عالمی ذرائع ابلاغ سے آنے والی ہر یلغار کو اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال سے ناکام کر دیا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے لئے حماس میڈیا پراپیگنڈا سائنس کا بہترین استعمال کیا ہے، جس کی ایک مثال قیدیوں کے تبادلہ کی جگہ پر آویزاں کئے جانے والے بینرز اور ان پر موجود وہ ڈیزائن اور لوگو ہیں، جو چیخ چیخ کر اسرائیل کی اور امریکی کی شکست کی نوید سنا رہے ہیں۔ یعنی طوفان اقصیٰ کا لوگو ہر بینر پر موجود ہے۔ جب غاصب صیہونی فوجیوں کو رہا کیا جا رہا ہے تو آپ نے ویڈیوز دیکھی ہوں گی کہ سب کے سب قیدی ہنستے ہوئے ہاتھ ہلاتے ہوئے جا رہے ہیں، یعنی حماس نے سخت جنگ کے باوجود بھی ان قیدیوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے، ان کی جان کی حفاظت کی ہے، ان کو اسلامی قوانین کے مطابق تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

سات اکتوبر کے بعد غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے کہا تھا کہ حماس کی قید میں موجود لوگ فوجی نہیں بلکہ سول لوگ ہیں، لیکن حماس نے ان کی رہائی کے وقت ان کو اسرائیلی فوجی یونیفارم پہنا کر دنیا کو بتا دیا ہے کہ یہ سب کے سب فوجی ہیں۔ حماس نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے وقت ان کے ہاتھوں میں تحائف اور سرٹیفکیٹ بھی دیئے، جس کی وجہ سے خود امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر کافی شور اٹھا ہوا ہے کہ آخر حماس کس طرح میڈیا میں اور نفسیاتی جنگ میں کاری ضرب لگانے میں مصروف ہے۔ واضح رہے کہ ان سرٹیفکیٹ پر طوفان اقصیٰ کا لوگو بنایا گیا ہے، جو ہمیشہ غاصب صیہونیوں کو طوفان اقصیٰ کی یاد دلواتا رہے گا۔ غاصب صیہونی قیدیوں کی رہائی کے وقت ان کی پشت پر آویزاں بڑے بڑے بینرز پر کامیابی کے نعرے درج ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ فلسطینی عوام کامیاب ہیں۔

قیدیوں کی گردن میں فلسطینی مفلر بھی فلسطینیوں کی کامیابی کی ایک اور بڑی دلیل ہے۔ عام طور پر جب دو ریاستوں میں کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو دونوں ریاستوں کے جھنڈے لگائے جاتے ہیں، تاہم قیدیوں کے تبادلہ کے وقت القسام کے مجاہدین نے اسٹیج پر دو جھنڈے لگا رکھے ہیں، لیکن ان میں اسرائیلی جھنڈا نہیں ہے بلکہ دونوں جھنڈے فلسطین کے ہیں۔ یعنی ان کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ فلسطین پورے کا پورا فلسطینوں کا ہے۔ قیدیوں کے تبادلہ کے وقت ہونے والی تقاریب میں ہزاروں فلسطینی جمع ہو کر اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ غزہ اور فلسطین کے عوام حماس اور القسام کے ساتھ ہیں۔ قیدیوں کے تبادلہ کے اسٹیج پر فلسطینی جوانوں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بارعب انداز میں آتے ہیں اور ان کا اسلحہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے اور یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ مزاحمت زندہ ہے۔

قیدیوں کے تبادلہ کے اسٹیج پر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل سے چھینا گیا اسلحہ اور ساز و سامان بھی رکھا گیا ہے، جو دشمن کی مکمل تحقیر کا باعث بن رہا ہے۔ اس بات کی علامت ہے کہ مزاحمت طاقتور ہے۔ خواتین صیہونی قیدیوں کے ہاتھوں میں فلسطینی جھنڈے کے ڈیزائن والے کلائی بند پہنائے گئے ہیں، جو ان فوجی قیدیوں نے خوشی خوشی پہن رکھا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جنگ اور سیاست کے میدان میں استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی صورت دشمن کے سامنے سر تسلیم نہیں کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 1188834
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش