تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کا تازہ تازہ فرمان صادر ہوا ہے کہ اہل غزہ کو غزہ سے نکال دیا جائے، انہیں مصر روانہ کر دیا جائے، جہاں یہ پرانے بنی اسرائیلیوں کی طرح بھٹکتے پھریں اور انہیں راہ نہ ملے۔ اردن کو بھی حکم ہوا ہے کہ وہ بھی تیار ہو جائے اور بڑی تعداد میں اہل غزہ کو قبول کرے۔ اردن، مصر اور دیگر آمریتوں کی کیا مجال جو شہنشاہ کے حکم کی نافرمانی کریں؟ انہیں کیوں نکالنا ہے؟ ارشاد ہوا کہ غزہ کی تعمیر نو کرنی ہے اور غزہ بہترین خطہ ہے، جی ٹھیک ہوگیا۔ جب غزہ کو بہترین کہہ دیا اور اسے تعمیر بھی کرنا ہے تو آپ خود سمجھ جائیں کہ شہنشاہ معظم کیا فرمانا چاہتے ہیں۔؟ بات واضح ہے کہ ہم اس خطے پر اپنا تسلط چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بہترین سمندر اور سونا اگلتی زمینیں ہماری ہوں۔ فلسطین نام کا ملک تاریخ کے ہر نقشے سے بھی مٹا دیا جائے۔ لگ یوں رہا ہے کہ ٹرمپ دنیا کو شہنشاہ بن کر چلانا چاہتا ہے، جہاں کوئی مخالفت نہ ہو، جہاں فقط اطاعت گزار بندے ہوں۔
آپ ذرا انداز لگائیں، محمد بن سلمان نے کہا ہم امریکہ میں چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ حکم ہوا یہ کیا بکواس ہے۔؟ تمہیں ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ محمد بن سلمان کی حالت کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پانامہ ہم سے پانامہ کینال سے گزرنے کا ٹیکس لیتا ہے، لہذا ہم پانامہ کینال پر ہی قبضہ کر لیں گے۔ جی ٹھیک ہوگیا۔ ڈنمارک کا جزیرہ گرین لینڈ معدنیات سے مالا مال ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ڈنمارک یہ جزیرہ ہمیں بیچ دے۔ جی یہ بھی ٹھیک ہے۔ اب ڈنمارک جیسا معمولی سا ملک شہنشاہ کے سامنے کیسے ٹھہر سکتا ہے۔؟ کینڈا امریکہ کا پڑوسی ہے، شہنشاہ معظم کا خیال ہے کہ اسے امریکہ کی ریاست ہونا چاہیئے۔ یہ بھی خوب ہے، بیچارے کینڈین وزیراعظم نے اگلا الیکشن ہی لڑنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ امریکہ کے آگے انکار نہیں کرسکتے۔ بہتیری کوششیں کیں کہ شہنشاہ معظم کو رام کیا جائے مگر ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اہل عقل و خرد حیران ہیں کہ امریکیوں نے کیسا صدر چنا ہے۔؟ راجہ ظفر الحق صاحب درست فرما رہے تھے کہ ایسا صدر امریکی ہی چن سکتے ہیں۔ مجھے تو شہنشاہ سخن اسد اللہ خاں غالب یاد آگئے، کیا خوب فرما گئے:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
جناب یہ بین الاقوامی قانون بھی کسی چیز کا نام ہے۔ دنیا میں آپ نے ہی دنیا چلانے کو کچھ اصول وضع کیے ہیں۔ یہ اصول آپ کی شہنشاہت کے دوام کے لیے ہیں۔لگ یہ رہا ہے کہ اب دنیا میں کوئی اصول کوئی ضابطہ باقی نہیں رہا۔ ہمیشہ کی طرح طاقت کی زبان میں ہی بات کی جائے گی۔ تو جناب بین الاقوامی قانون کی رو سے مقبوضہ علاقے سے وہاں کی آبادی کی کسی اور جگہ جبری منتقلی "جنگی جرم" بھی ہے اور "انسانیت کے خلاف جرم" بھی۔ جب آپ کو غزہ میں لائیو نسل کشی پر رحم نہیں آتا تو منتقلی تو آپ کے نزدیک کوئی جرم ہی نہیں ہوگی۔
دنیا میں بہت سے لوگ امن کی بات کرتے ہیں، پرامن جدوجہد کے نعرے لگاتے ہیں اور مشورے دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ جس جدوجہد کی قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کی اجازت دیتا ہے، اسے بھی ترک کر دیا جائے اور فقط پرامن جدوجہد کی جائے۔ یہ پڑی ہے آپ کی پرامن جدوجہد کی ساری تھیوریاں، اب آپ کو معلوم ہو جانا چاہیئے کہ دنیا میں ہمیشہ کی طرح ایک ہی اصول اور ضابطہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنی شناخت کے ساتھ رہنا ہے تو طاقت کے ساتھ رہنا ہوگا۔ محترم شہنشاہ معظم ٹرمپ صاحب آپ نے غزہ سے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر کو بڑے غور سے دیکھا ہوگا۔ ابھی پرسوں ہی قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ آپ نے یقیناً برا محسوس کیا ہوگا۔ زمین کے مالک زمین چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی عوام ہزاروں لوگوں کا قتل عام کروانے کے بعد پسپا ہوئے ہیں۔
یہ فیصلے آمر بادشاہوں نے نہیں کرنے، یہ زمین پر اور زیر زمین موجود اہل مزاحمت نے کرنے ہیں۔ جن کا فخر قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت ہے اور جنہوں نے زندگیوں کا مقصد ہی تبدیل کر لیا ہے۔ غزہ کے زمین زاد عربوں سے کہہ رہے ہیں:
#یا_عَابِدَ_الْحَرَمَیْنِ_لَوْ_اَبْصَرْتَنَا
اے حرمین شریفین کے عابد! اگر آپ ہم مجاہدین کو دیکھ لیں،
لَعَلِمْتَ اَنَّکَ فِی الْعِبَادَۃِ تَلْعَبُ
تو آپ جان لیں گے کہ آپ تو عبادت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
مَنْ کَانَ یَخْضِبُ خَدَّہُ بِدُمُوْعِہِ
اگر آپ کے آنسو آپ کے رخساروں کو تر کرتے ہیں،
فَنُحُوْرُنَا بِدِمَائِنَا تَتَخَضَّبُ
تو ہماری گردنیں ہمارے خون سے رنگین ہوتی ہیں۔
بات غزہ تک محدود نہیں رہنی، مغربی کنارے کو آبادکاروں کو بستیوں سے کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔ ہر جگہ آبادکار ہی آبادکار ہیں۔ آپ نقشے پر دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے زمین کو دیمک لگ چکی ہے اور آہستہ آہستہ زمین کو کھا رہی ہے۔ پہلے یہ منصوبہ صیہونیوں کا تھا اور اب یہ منصوبہ امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنا لیا ہے کہ اہل فلسطین کو فلسطین سے نکال دیا جائے گا اور سارے کا سارا قابض قوتوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس پروگرام کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ ہے، اہل غزہ کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ دنیا کی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود غاصب کیمروں پر ان گنز کو دیکھ رہیں ہیں، جو انہوں نے مزاحمت کاروں کو کنٹرول کرنے کے لیے خاص طور پر بنائی تھیں، مگر اب وہ غزہ کے مزاحمت کاروں کے زیر استعمال ہیں۔ دنیا بھر میں اب یہ خیال پختہ ہوگا کہ اگر اپنا حق لینا ہے تو تمہیں طاقت کی زبان میں بات کرنا ہوگی۔ خدشہ یہ ہے کہ اب دنیا کے وسائل کا رخ اسلحہ سازی کی طرف مڑ جائے گا۔
امریکی صدر ہر جگہ پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے قوموں کے اجتماعی شعور کی توہین کرتے ہیں۔ دیگر اقوام سے ان کے فیصلے کا اختیار سلب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شہنشاہت ہے، یہ آمریت ہے، یہ جدید استعماریت ہے اور افسوس یہ ہے کہ اس کے مقابل کوئی بھی آنے کو تیار نہیں ہے۔ پہلے اس کا شکار مسلمان تھے اور اب اس کا دائرہ کار یورپ اور خود براعظم امریکہ تک پھیل رہا ہے۔ ابھی مشہور صحافی ثقلین امام صاحب نے لکھا: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کولمبیا پر پابندیاں لگا دیں، کیونکہ اس نے غیر قانونی مائیگرنٹس کو لے جانے والے امریکی فوجی طیارے کو اترنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ امریکہ جیسے طاقتور ملک کی ایک کمزور ملک پر دھونس اور بُلینگ کی ایک افسوسناک مثال ہے۔ امریکہ دنیا پر غلبہ رکھتا ہے، جبکہ کولمبیا وسائل محدود کی وجہ سے امریکی کی حمایت پر انحصار کرتا ہے۔ یہ عالمی طاقت کے بدمعاش رویئے کو ظاہر کرتا ہے۔