تحریر: سید رضا میر طاہر
مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانزے نے کہا کہ پولینڈ کو بین الاقوامی انصاف کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وارسا کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس وقت گرفتار کرنا چاہیئے، جب وہ اس ملک کا دورہ کرے۔ فرانسسکا البانزے نے زور دے کر کہا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اراکین کو ایسے افراد کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے، جن کے لیے عالمی عدالت نے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ پولینڈ، جس نے منگولیا کی اس لئے مذمت کی تھی کہ اس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو گرفتار نہیں کیا تھا، اب اسے نیتن یاہو کو گرفتار کر لینا چاہیئے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جمعہ کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں متعدد مظاہرین نے ملک کی حکومت کے نیتن یاہو کو استثنیٰ دینے اور انہیں گرفتار نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جمعرات (21 نومبر 2024ء) کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم (غزہ کے لوگوں کو بھوک سے مارنے) کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کی جانب سے اس فیصلے کی درخواست کے چھ ماہ بعد آیا ہے۔
اس بے مثال فیصلے پر صیہونی حکومت کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا، کیونکہ اب تک اس حکومت نے ہمیشہ امریکہ کی حمایت سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں بالخصوص حماس کو دہشت گرد اور مجرم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور خود کو پرامن قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کو پہلی بار اس طرح کے فیصلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف اسرائیل کے بے مثال، وسیع اور پوشیدہ جرائم، نسل کشی، بھوک کے ہتھیار کا استعمال، امداد کی روک تھام اور UNRWA کی سرگرمیوں پر پابندی، یہ سب امریکی حمایت اور عالمی برادری کی خاموشی کا نتیجہ ہیں۔ آج اس حکومت کی مذمت کی عالمی لہر اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سے صیہونی حکومت کے اعلیٰ حکام کے خلاف مقدمہ چلانے کی درخواست ایک ایسا اقدام ہے، جس کی عالمی برادری کو حمایت کرنی چاہیئے۔
بہرحال اب جبکہ عالمی عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل کریم خان اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ججوں نے 2024ء کے وسط میں نیتن یاہو اور گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کی ہے تو اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر جنگ یوو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری نے اپنی بے مثال نوعیت اور اہمیت کی وجہ سے عالمی سطح پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ 124 ممالک اس بین الاقوامی فوجداری عدالت کے رکن ہیں اور 29 ممالک نے متعلقہ بین الاقوامی معاہدے (روم سٹیٹیوٹ) پر دستخط کیے ہیں، لیکن اپنے ملکی قوانین میں اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اس فیصلے پر مغربی ممالک میں پیچیدہ اور متضاد ردعمل سامنے آیا ہے۔ یورپی ممالک، جن میں تقریباً سبھی اس عدالت کے رکن ہیں، اب ایک بڑے امتحان سے دوچار ہیں۔
ان ممالک کے موقف اس مسئلے کی طرف یورپیوں کے دوہری رویئے کی ایک اور علامت ہیں۔ تمام یورپی ممالک روم کے قانون کے فریق ہیں اور انہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو قبول کیا ہے۔ تاہم یورپی ممالک نے اس بارے میں متضاد ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد، اس وقت کے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوزپ بوریل نے X پر ایک پیغام میں زور دیا تھا کہ عدالت کا یہ حکم نافذ العمل ہے اور اس کی تعمیل ہونی چاہیئے۔ ابھی تک یورپی ممالک نے اس معاملے پر مختلف طرح کا موقف اپنایا ہے۔ ہنگری اگرچہ یورپی یونین کا رکن ہے، لیکن اس نے اس فیصلے کے فوراً بعد اعلان کیا کہ وہ نہ صرف اس حکم پر عمل درآمد نہیں کرے گا بلکہ نیتن یاہو کو بڈاپسٹ کے دورے کی دعوت بھی دے گا۔
کچھ دوسرے ممالک، جیسے اٹلی، آئرلینڈ، بیلجیم، نیدرلینڈز اور ناروے نے اعلان کیا کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کریں گے اور اگر نیتن یاہو ان کے ممالک کا سفر کرتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ مذکورہ ممالک میں سے ہالینڈ نے اس معاملے پر اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ کچھ دوسرے ممالک نے نہ تو واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اس حکم کو نافذ کریں گے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔ جرمنی اور برطانیہ اہم یورپی ملک ہیں، لیکن یہ دونوں عملی طور پر اس حکم کو نافذ کرنے سے انکاری نظر آرہے ہیں۔ اب، نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے یورپی ممالک کے موقف کے تسلسل میں، پولینڈ نے (بین الاقوامی فوجداری عدالت میں رکنیت کے باوجود) اپنی ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو ان کے ملک کا دورہ کریں گے تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
یہ اس وقت سامنے آیا ہے، جب وارسا نے اس سے قبل منگولیا پر تنقید کی تھی کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو اپنے ملک کے دورے کے دوران حراست میں کیوں نہیں لیا، حالانکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے ان کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے گئے تھے۔ یہ دوہرا موقف ایک بار پھر دہشت گردی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم جیسے مسائل کے حوالے سے مغربی ممالک کی منافقت کو طشت از بام کرتا ہے، جو ایک جیسے مسئلے پر مختلف موقف اپناتے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک عالمی اداروں اور ان کے فیصلوں کو ہمیشہ اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ ان کے مقاصد کے حصول میں ممد و معاون ہوں تو ان پر عملدرآمد ضروری، وگرنہ انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔