تحریر: مجید وقاری
میانمار کی فوج نے مسلمانوں کے خلاف جرائم کے ایک نئے دور میں ریاست رخیئن میں مسلمانوں کے ایک گاؤں کو تباہ کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق رامری جزیرے کے جنوب میں واقع گاؤں "چیاوک نی ماو" پر بمباری کے نتیجے میں کم از کم 41 افراد جاں بحق اور 52 زخمی ہوگئے ہیں۔ ریاست رخائن میں زیادہ تر مسلمان اور کیان نسلی گروہ آباد ہیں۔ ریاست رخیئن میں مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے عینی شاہدین کے مطابق بمباری میں لکڑی کے 500 سے 600 مکانات بھی جل گئے اور زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ میانمار کی فوج کے طیاروں کے مزید حملوں کے خوف سے علاقے میں داخل ہونے سے گھبرا رہے ہیں۔
ایک دہائی سے زائد عرصے سے، بدھ انتہاء پسند اور میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، خاص طور پر ریاست رخائن میں یہ سلسلہ اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ اس جرم کو جاری رکھنے کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ روہنگیا کے رہائشی علاقوں اور کھیتوں کو جلا کر وہ ان زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بدھ مت کے انتہاء پسند اور فوج لوگوں کو ان کے گھروں سے بھگا کر ان کی املاک اور اثاثوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی کامیابیوں کے بعد، انتہاء پسند راکھین کی خواہش ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھتے ہوئے ان کا نسلی صفایا کیا جائے اور اپنے فائدے کے لیے ان کی جائیدادیں ضبط کرلی جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو قتل کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کے مرتکب مجرموں کا جواز یہ ہے کہ مسلمان تارکین وطن ہیں اور بنگلہ دیش سے میانمار میں داخل ہوئے ہیں، لہذا انہیں ملک چھوڑنا چاہیئے۔ تاریخی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ روہنگیا مسلمان نہ صرف میانمار کے اصل باشندے تھے (خاص طور پر ریاست رخیئن میں) بلکہ اس علاقے پر سینکڑوں سال تک حکومت کرتے رہے ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ روہنگیا مسلمانوں کی زمینیں اور تجارتی مراکز اعلیٰ ترین زرعی اور تجارتی معیار کے حامل ہیں، لہذا ایک دہائی سے زائد عرصے سے، بدھ انتہاء پسند اور فوجی روہنگیا مسلمانوں کی زرعی اور تجارتی جائیدادوں اور زمینوں کو ہتھیانہ چاہتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بدھ مت کے رہنماؤں کا کردار بھی نہایت بھیانک ہے۔ اس کی ہلہ شیری بھی فوج اور انتہاء پسند بدسٹوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہے۔ ان وحشیانہ جرائم میں بدھ مت کے رہنماؤں کا بھی اساسی کردار ہے۔ روہنگیا میں مسلمانوں کے قتل کی شدت اور حدت اتنی زیادہ ہے کہ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین نسلی اقلیت قرار دیا ہے۔
دریں اثناء میانمار میں بعض عرب ممالک کی سرمایہ کاری بھی ریاست رخائن سے روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی اور ان کی زمینوں پر قبضے کا ایک اہم عنصر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں روہنگیا مسلمانوں کو سعودی عرب منتقل کرکے انہیں انتہائی معمولی اور پست درجے کی ملازمتوں پر لگایا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل عالمی مظاہروں کی وجہ سے بدھ انتہاء پسندوں اور فوج نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام روک دیا تھا، لیکن اب جبکہ عالمی برادری مغربی ایشیاء اور یوکرین جیسے بحرانوں اور مسائل میں مصروف ہے، بدھ انتہاء پسندوں اور فوج نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام تیز کر دیا ہے۔