0
Saturday 27 Jul 2024 12:24

آب رواں تہذیب کا نشاں

آب رواں تہذیب کا نشاں
تحریر: حسین پارس نقوی

دنیا میں اب تک 30 لاکھ کے قریب دریاؤں کی دریافت ہوچکی ہے، جن میں دریائے نیل اپنی طولانی کے اعتبار سے "دریائے بزرگ" کہلاتا ہے۔ "Land of Rivers" کا لقب آج بھی بنگلہ دیش کے حصے میں آتا ہے۔ ہر دریا کی مخلوقات دوسرے دریاؤں کی مخلوقات سے مختلف ہوتی ہیں، جو ان دریاؤں کے پانی اور دیگر عوامل کی بنا پر ہے، یہاں تک کہ دو مختلف دریاؤں کی مچھلیوں کا ذائقہ بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ اس فرق کی بنیادی وجہ پانی کا درجہ حرارت، دریا کی آب و ہوا اور دریا کے بہاؤ کی نوعیت ہے۔ ان عوامل کی بنیاد پر سرد پانی میں پروان چڑھنے والی مچھلیاں گرم پانی کی مچھلیوں سے مختلف خصوصیات رکھتی ہیں، مگر ان تمام اختلافات کے باوجود، ایک چیز جو ان میں مشترک ہے، وہ پانی ہے۔

دریائی مخلوقات کی بقاء پانی پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر مچھلی کو پانی سے نکال دیا جائے یا دریا سے پانی غائب ہو جائے تو دریائی حیات کی معدومیت کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح، اگر دریا کے پانی میں تحرک نہ ہو اور وہ جمود کا شکار ہو جائے تو دریا ایک گندے نالے کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس سے تعفن اور بدبو پیدا ہو جاتی ہے اور دریائی مخلوقات کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح، انسانی معاشرے کی اقدار و روایات اور تہذیب و تمدن بھی پانی کی طرح بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں اپنے مخصوص جغرافیائی اور تاریخی سیاق و سباق کی بنیاد پر منفرد ہوتی ہیں، جو معاشرتی اقدار و روایات میں تنوع پیدا کرتی ہیں۔

اگر یہ اقدار اور تہذیب و تمدن مشترک ہو جائیں اور تنوع کی روح پرواز کر جائے تو ان کی شناخت بھی نہیں ہو پائے گی۔ اسی طرح اگر تہذیب و تمدن خشک ہو جائیں یا جمود کا شکار ہو جائیں، تو معاشرتی ترقی متاثر ہوتی ہے، یہاں تک کہ سماجی حیات کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تمدن اور تہذیب معاشرے کی شناخت اور اس کی ترقی کی بنیاد ہیں، جن کی بنا پر معاشرتی نظام تشکیل پاتا ہے۔ تمدن میں مادی عناصر جیسے کہ گاڑی، مکان، لباس اور خوراک شامل ہیں، جبکہ تہذیب میں غیر مادی عناصر جیسے کہ عقائد، نظریات، قوانین، زبان، اور علم شامل ہیں۔ فقط تہذیبی عوامل کو اپنانے سے مہذب تو ہوسکتے ہیں، مگر معاشرے میں تمدن کے بغیر جینا محال ہے اور فقط تمدنی عناصر کو اپنانے سے متمدن ہونا ایسا ہے، جیسے جسم بلا روح یا پھول بغیر خوش بو۔

اس لیے تہذیب و تمدن اور مہذب اور متمدن ہونے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تہذیب و تمدن کے اصولوں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تغیر و تبدل آتا رہتا ہے، جو کہ معاشرتی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ لیکن یہاں ایک بات اہم ہے: معاشرے میں نئے اقدار اور تہذیب کو اپنانے سے پہلے، اپنے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر ہم دریا کے پانی کی جگہ آب زم زم، آب کوثر، یا دودھ ڈالنے کی کوشش کریں، تو یہ تجربہ ناکام ہوسکتا ہے۔ یہی اصول معاشرتی تبدیلیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے؛ غیر مناسب تبدیلیاں معاشرتی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

مختصر یہ کہ معاشرتی دریا میں مناسب تہذیب و تمدن کے بجائے محض پسندیدہ یا مقدس تہذیب و تمدن کو ڈالنے کی کوشش نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ معاشرتی سائنسدانوں اور سوشل انجیئرز پر منحصر ہے کہ وہ کون سے تہذیبی اور تمدنی عناصر کو رائج کریں، جو معاشرتی ترقی کے لئے مفید ہوں۔ ہر تہذیب و تمدن کو اپنانے سے پہلے، زمینی حقائق اور معاشرتی ضروریات کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سماج کا دریا خشکی یا جمود کے عالم میں ایسے بھٹکنے لگے کہ اس کی روانی ہمیشہ کے لئے تھم جائے یا اس کی شناخت کھو جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تبدیلی کو اپنانے سے پہلے اس کے اثرات اور موزونیت پر غور کیا جائے، تاکہ معاشرتی ترقی کی سمت درست اور مستحکم رہے۔
خبر کا کوڈ : 1150356
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش