0
Thursday 25 Jul 2024 01:13

محرم الحرام، عزاداری، سوشل میڈیا کے اثرات

محرم الحرام، عزاداری، سوشل میڈیا کے اثرات
تحریر: ارشاد حسین ناصر

محرم الحرام پوری دنیا میں انتہائی احترام اور عقیدت سے منایا جاتا ہے، بالخصوص پہلا عشرہ میں تمام مکاتیب فکر اپنے اپنے انداز میں امام حسین ؑ اور شہدائے کربلا کیساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ لکھاری مضامین لکھتے ہیں اور شہدائے کربلا کے لازوال کردار کو اجاگر کرتے ہیں۔ شعراء اپنی نظموں، غزلوں اور نوحہ و سلام میں شہدائے کربلا بالخصوص قافلہ سالار حریت ابا عبداللہ الحسین ؑسے اپنی بے پناہ محبت اور قلبی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ علماء و خطباء اپنی تقاریر و خطابات میں لوگوں کو اپنے اپنے انداز میں واقعہ کربلا کے مختلف پہلوءوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ذاکرین و نوحہ خواں و ماتمی اپنے رنگ میں ان ایام میں اپنا حصہ ڈالنا فرض سمجھتے ہیں۔ مجالس و جلوسوں کے بانیان اور نذر و نیاز و کا اہتمام کرنے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے اور لاکھوں روپے خرچ کرکے ان ایام میں عزاداران امام حسین ؑ پرسہ دارانِ مظلوم کربلا کیلئے دسترخوان سجاتے ہیں۔ سبیلیں لگاتے ہیں، پانی پلاتے ہیں، دودھ، شربت سے گرمی کے مارے مجالس و عزا کے پروگراموں کے شرکاء اور عام لوگوں کی نہایت عقیدت سے تواضع کرتے ہیں۔

یہ سلسلہ ہر سال پہلے سال سے بڑھ جاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ زمانے کے گرم و سرد تھپیڑے، موسم کی گرمی، سردی، دشمنان اہل بیتؑ کی سازشوں، گھٹیا اور منفی پراپیگنڈا، جلوسوں و مجالس کی راہ میں انتظامیہ اور تکفیریوں کی ملی بھگت و سازشوں، دھونس دھمکیوں، ایف آئی آرز، پرچے، گرفتاریاں، گولیوں کی برسات، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی دھمکیوں جیسے انتہائی منفی اور متعصبانہ اقدامات کے باوجود یہ عقیدت، یہ قربانی، یہ سلسلہ عزا نا رکا ہے، نہ تھما ہے، نہ کم ہوا ہے، نہ رک سکے گا، نہ کم ہوسکے گا۔ ہم تو کئی سال سے یہی بات کر رہے ہیں کہ ہر سال، پہلے برس سے زیادہ شان و شوکت سے اہتمام نظر آتا ہے۔ پہلے سے زیادہ شرکت، پہلے سے زیادہ سبیلیں، پہلے سے زیادہ نیاز، پہلے سے زیادہ علم، پہلے سے زیادہ ماتمی نظر آتے ہیں۔ پھر یہ ان منفی اور گھٹیا کرداروں کو کیا فائدہ ملتا ہے، جن کی ساری کوشش و خواہش ان مجالس، ان جلوسوں، ان سبیلوں اور نیاز و نذر کے اہتمام پر قدغن لگوانا اور انہیں محدود کروانا ہوتا۔

اک طرف تو امت کے وہ لوگ ہیں، جو ان ایام عزاء کو ایام عزاء بناتے ہیں اور چودہ صدیاں پہلے گزرے واقعہ کو اپنی عقیدت، محبت، قربانی، ایثار اور اپنا مال و اولاد خرچ کرکے بھی غم حسین، غم نبی مرسل ؐ کو تازہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ ایسے عقیدت مند ہیں کہ ان ایام غم میں اپنے کسی بھی سگے کا دکھ اور غم بھول جاتے ہیں۔ اگر ان ایام میں کسی کے گھر میں میت ہو جائے تو اسے واجبی کفن، جنازہ، دفن کے بعد غم شہدائے کربلا میں مصروف ہو جاتے ہیں اور تعزیت قبول نہیں کرتے۔ اپنے کسی پیارے کے غم اور جدائی کی تعزیت عمومی طور پر بارہ محرم کے بعد وصول کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی مرد مومن کے گھر میں مجلس کا اہتمام تھا، ماتمی جلوس تھا، کوئی شبیہ برآمدگی تھی، اس دوران اچانک سے کسی گھر کے فرد کی موت ہوگئی تو ان لوگوں نے اپنی میت کو کسی کمرہ میں بند کر دیا اور اعلان نہیں کیا، تاوقتیکہ مجلس، جلوس برآمد نہیں ہوگیا۔ بعد ازاں اپنی ذاتی میت کا غسل، کفن جنازہ و دفن کا اہتمام کیا گیا۔

کجا وہ لوگ جو آل امیہ کی سازش کا شکار ہو کر ایام محرم بالخصوص دسویں کے دن قبرستانوں میں اپنوں کی قبروں پر مٹی جھاڑنے، لپائی کرنے، دال ڈالنے پہنچے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب مخلوق بھی پیدا ہوچکی ہے، جو محرم کا چاند نظر آنے سے پہلے بہت مغموم ہو جاتے ہیں، ان کے چہرے لٹک جاتے ہیں، ان کو بہت سی بیماریاں لگ جاتی ہیں اور جیسے جیسے ایام گذرتے ہیں، ان کی بیماری زور پکڑ لیتی ہے۔ ان کے دعوے تو خاتم الانبیاء محمد مصطفیؐ اور ان کی آل پاکؑ سے محبت کے رہتے ہیں، مگر ان کی تیاریاں اور ان کے عمل، ان کے کردار نبی آخر الزمان ؐ اور ان کے خانوادہ اطہر بالخصوص اولاد ابو طالب ؑ سے دشمنی اور حسد اچھل اچھل کے باہر آتا ہے۔ ایام محرم میں ان کو توفیق نہیں ہوتی کہ یہ اپنی مساجد، اپنی محافل، اپنی کتابوں، اپنے رسائل، اپنے اخبارات، اپنے جرائد، اپنے سوشل میڈیا اکاءونٹس سے اس واقعہ کے مختلف پہلوءوں، اس میں شہید ہونے والے بہتر پاکیزہ نفوس کے ارفع کرداروں، ان کی زندگانی، ان کے حالات و واقعات، ان کی باتیں۔

ان شہداء میں خاتم الانبیاء کے گھرانہ کے قیمتی ترین لوگ بھی شامل ہیں، ان کی سیرت و کردار کا کوئی واقعہ ہی بیان کر دیں، بلکہ ان ایام میں ان کی بھرپور کوشش و خواہش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح یزید و یزیدیوں کو اس واقعہ سے میلوں دور لے جائیں اور یزید و یزیدیوں کو ان کے پلید و خبیث کاموں کی مذمت کی بجائے انہیں اہلبیتؑ کے گھرانے سے محبت کرنے والا ثابت کرسکیں۔ میری ذاتی رائے میں سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کی چکا چوند نے پیغام حسینیت لوگوں تک پہنچانے کا وسیع انتظام کر دیا ہے، وہ حقیقت جسے یہ کہہ کر چھپانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ اگر مجلس امام حسین ؑ میں گئے تو نکاح باطل ہو جائے گا، بیوی حرام ہو جائے گی۔ سبیل سے پانی یا شربت پیا تو حرام پیا، نیاز کھائی تو اتنا کفارہ دینا پڑے گا۔

اب یہ سلسلہ گھر گھر گلی گلی ہوتا ہے، مجالس جن کیلئے اجازت، سکیورٹی اور نہ جانے کیا کچھ کرنا پڑتا تھا، اب جدید دور میں ہر گھر میں برپا ہوتی ہے (جبکہ اجازت والی مجالس اب بھی ایسے مراحل کا شکار رہتی ہیں)، نوحوں کی صدا بھی ہر گھر سے سنائی دیتی ہے۔ عالمی میڈیا، سوشل میڈیا، قومی میڈیا ایام محرم الحرام میں ان گنت مجالس برپا کرتے ہیں۔ پہلے ایک مجلس شب عاشور ہوتی تھی، اب ہر چینل شب عاشور کی مجلس کا اہتمام کرتا ہے۔ لہذا کسی کا ان مجالس و جلوسوں کو روکنا، محدود کرنے کا خواب اب خواب ہی نہیں رہا، اب دشمنان اہلبیت ہر وہ کام خود بھی کرنے لگے ہیں، جن کا ہم پر اعتراض ہوتا تھا، جس کا ہمیں طعنہ دیتے تھے۔ جن کے کرنے پر لوگوں کے نکاح ٹوٹنے کے فتوے دیتے تھے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب اپنے اکابرین کے نام پر جھنڈے بناتے ہیں، سبیلیں لگاتے ہیں اور لنگر بھی نکال لیے ہیں جبکہ یہ کام چونکہ غیر خدا کے نام پر ہوتا تھا تو حرام کہا جاتا ہے، اب خود کرنے لگے ہیں تو حلال کر لیا ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک کے لونڈے لپاڑے محرم الحرام میں "ہم آہ والے نہیں، ہم واہ حسین والے ہیں" کی بیک گراءونڈ پر ویڈیو بناتے نظر آئے۔ جن کا کام سارا سال میوزیکل ویڈیو بنانا ہے، وہ ان دس دنوں میں ویوز لینے کیلئے اہل تشیع کے خلاف ویڈیوز بنا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر ان کی بھول تھی کہ وہ اہل تشیع کا مقابلہ کرسکتے ہیں، یہ لوگ فقط دس دنوں میں یہ کام کرکے اہل تشیع کو سال بھر کا چارج دے گئے ہیں۔ سال بھر اہل تشیع تمہاری بونگیوں پر اپنا موقف دیتے ہوئے لاکھوں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکیں گے۔

ویسے بھی ہمارے بزرگان کو اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہی، اہل سنت، دیوبند اور دیگر مکاتیب فکر کے بہت سے لوگ اپنے نبی ؐ کی محبت اور فرامین کی روشنی میں اہلبیت اطہار ؑ کے مقام کو پہچانتے اور شناختے ہوئے ان کی محبت کا دم بھرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے کلپس مسلسل وہ کام کر رہے ہیں، جو کوئی اور نہیں کرسکتا۔ ایک کلپ نظر سے گزرا، جس میں بنو امیہ کے ایک سر کردہ کے بارے ایک پنڈی وال مفتی نے شد و مد کیساتھ اس کے کردار کو لوگوں کے سامنے رکھا ہے۔ یہی باتیں اگر کوئی اہل تشیع کرتا تو سیدھا پرچہ کٹتا اور فوری گرفتاری بھی لازمی ہوتی۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا کے منہ زور گھوڑے پر سوار بعض کج فکروں کو اپنی کج فکری کا جواب ان کے بزرگ، نامور لوگوں کی طرف سے ہی مل جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1149854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش