متعلقہ فائیلیںرپورٹ: ایل اے انجم
بلتستان یونیورسٹی اسکردو میں چھٹی سالانہ یومِ حسینؑ کانفرنس عقیدت و احترام کے ساتھ منقعد کی گئی۔ کانفرنس میں تمام مسالک کے علماء، دانشور حضرات اور منقبت خواں حضرات نے شرکت کی۔ مقررین نے کانفرنس میں اُمت مسلمہ کے درمیان باہمی اتحاد و اتفاق پر زور دیا اور امام حسینؑ کی ذاتِ مقدسہ کو اتحاد کا محور و مرکز قرار دیا۔ کانفرنس کے کلیدی مقرر امام جمعہ و الجماعت حسین آباد آغا مظاہر حسین الموسوی تھے جبکہ وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی اسکردو پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم خان کانفرنس کی میزبانی کا فرض نبھا رہے تھے۔ دیگر مقررین میں علامہ سید حسن شاہ، کریم خان ہنزائی، اشرف تابانی، علیم عباسی، لاہور سے تشریف لائے مہمان سید ہارون رضا گیلانی، مفتی خالد، خواتین اساتذہ کی نمائندہ زرینہ تبسمؔ اور بلتستان یونیورسٹی اساتذہ کے نمائندے ڈاکٹر صابر علی وزیری شامل تھے۔
تلاوت، نعت و منقبت، سوز و سلام اور منظوم شاعری عارف سحاب، ذیشان مہدی،سید عباس نیئر، محمد علی کمیل، کاچو سہیل، ناصر کمال، لیاقت علی ہنزائی، مزمل اقبال اور دیدار حسین نے پیش کی۔ اختتامی کلمات اور اِظہار تشکر کی ذمہ داری ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر نے ادا کی۔ دوسری جانب کانفرنس کی تنظیم و ترتیب سے لے کر اختتام تک تمام معاملات کی نگرانی ”یوم حسینؑ کمیٹی“ نے کی جس میں ڈاکٹر ریاض رضی، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر صابر علی وزیری، قیصر عباس، موسیٰ علی اور مزمل اقبال شامل تھے۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سید زائر مہدی، سید نجم الحسن اور ثقلین مشتاق نے نبھائے۔ ساؤنڈ سسٹم اور فوٹو گرافی کا فریضہ اختر حسین نے انجام دیا۔
تفصیلات کے مطابق بلتستان یونیورسٹی سکردو میں سالانہ یومِ حسین انچن کیمپس آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم خان نے کہا کہ میں خود کو یونیورسٹی کا خادم سمجھتا ہوں، آپ نے یومِ حسینؑ کے ذریعے اتحاد بین المسلمین کا جو چراغ جلایا ہے اُس کی روشنی پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ اُنہوں نے طلبہ و طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تعلیم پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اتحاد پر بھی کام کریں، اہلبیت اطہارؑ ہمارے لئے رول ماڈل ہیں اور اُن کی پاک زندگی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ وائس چانسلر نے مزید کہا کہ آج کی یہ کانفرنس فلسطین کے ساتھ اِظہار یکجہتی ہے، اگر ہم نے اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنا ہوگا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دینی معلمہ زرینہ تبسم نے کہا کہ آج نہ فقط مسلمان بلکہ ہر قوم میں حسین شناسی کا عمل جاری و ساری ہے، بلتستان یونیورسٹی میں منعقدہ آج کی یہ کانفرنس حسینؑ کے استغاثہ کا جواب ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ زبانی لبیک یا حسین کہنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عمل و کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم حسینی ہیں۔ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر علیم عباسی نے کہا کہ جہاں جہاں ناانصافی ہوگی وہاں وہاں حسینیت ہوگی، پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں اِس قسم کی بابرکت محفل یا کانفرنس منعقد ہوتے میں نے نہیں دیکھی۔ لاہور سے تشریف لائے مہمان سید ہارون رضا گیلانی نے کہا کہ کربلا میں تسلیم و رضا کی انتہاء ہوئی، امام حسینؑ بتلا گئے کہ صبر کا حقیقی مفہوم کیا ہے، امام کی گردن پر خنجر تنی ہوئی تھی اور آپؑ کی زبانِ مبارک سے سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہورہی تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ آج ہم صبر نہیں جبر کے شکار ہوچکے ہیں، ہمیں صبر و جبر کے فرق کو سمجھتے ہوئے حسینیت کو سمجھنا ہے۔ معروف نوجوان عالم دین اشرف تابانی نے یومِ حسینؑ کے انعقاد کو بہترین اقدام قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یومِ حسینؑ صرف معلومات کی ترسیل کا نام نہیں بلکہ کردار و تربیت میں یقینی تبدیلی کا نام ہے۔ اُنہوں نے علم کی فضلیت و اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جو قومیں علم سے دور ہوئیں اُن سے ہر چیز چھینی گئی، ہمارے اداروں میں اسکلز بیسڈ ایجوکیشن ہونی چاہیئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ٹیکنالوجی میں عبور حاصل کرکے اپنے ضمیر کی آزادی کا ثبوت دیا۔ پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال کی فکر کا حتمی نتیجہ ہے۔
اُنہوں نے بلتستان یونیورسٹی کے یوم حسینؑ کو تمام یونیورسٹی کےلئے رول ماڈل قرار دیا۔ گلگت سے تشریف لائے مہمان کریم خان ہنزائی نے کہا کہ حسینؑ، کربلا اور یزید تاریخ کے واقعات ہیں اور یہ تینوں ازلی و ابدی نظریات ہیں، تاریخ میں شخصیات کئی آگئیں لیکن نظریہ یا تو حسینی رہا یا یزیدی رہا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مدینہ سے شب عاشور تک امام حسینؑ کے تمام خطبات میں شعور کے علاوہ کچھ نہیں ملتا جبکہ دوسری جانب یزید اور اُس کی سپاہ میں غرور کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، امام حسینؑ کا کام غرور کو چاک کرکے روشنی دینی تھی، ہر انسان کے وجود میں حسینی طاقت بھی ہے اور یزیدی خصلت بھی ہے۔
مفتی خالد نے مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اتحاد کو تقویٰ کی اولین بنیاد قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اہلبیتؑ سے محبت و اطاعت جز و ایمان ہے، اختلاف ہونا بری بات نہیں ہے البتہ خلاف ہونا بری بات ہے۔ علامہ سید حسن شاہ شگری نے کہا کہ یقیناً یوم الحسینؑ کانفرنس چھ سال کی محنت کا ثمر ہے، یہ کانفرنس تمام اُمور میں خیر و برکت لے کر آئی ہے اور آگے بھی خیر و برکت کا اثر ہوگا، کائنات کی خلقت کی وجہ محمد رسول اللہؐ ہیں، حسنؑ و حسینؑ مردوں کے سردار اور فاطمہؑ عورتوں کی سردار ہوں گی، یعنی جو بھی جنت میں ہوگا اُس کے سردار حسنؑ و حسینؑ ہوں گے۔
علامہ سید حسن شاہ شگری نے مزید کہا کہ حسینؑ تو ہمارے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم حسینؑ کے ہیں؟ حسینؑ کا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہمارے اعمال درست ہوں، پاکستان اس وقت جن مسائل سے گزر رہا ہے وہاں اتحاد و اتفاق کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، یزید 32 علاقوں سے فوج بُلاکر بھی بے چین رہا لیکن حسینؑ چراغ گل کر کے بھی مطمئن رہا اور کہا کہ جس نے جانا ہے جاؤ، حسینؑ انسانیت اور مسلمانیت کے لئے ہے، نماز فروع دین ہے اور حسینؑ اصول دین ہیں۔ صدر شعبہ ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ ڈاکٹر صابر علی وزیری نے کہا کہ اسلام میں اگر کوئی بڑے مبلغ ہیں تو وہ حسینؑ ہیں، کربلا میں جس قدر بھی افراد تھے وہ سب یقین کی منزل پر تھے۔
ڈاکٹر صابر علی وزیری نے مزید کہا کہ سب کے سب حسینؑ کی کلاس میں رہے، کوئی کلاس چھوڑ کر نہیں گیا، یقین کا مطلب ہے کہ انسان کو اپنے آپ کو اللہ کے سامنے سرینڈر کرے، بلتستان یونیورسٹی واحد یونیورسٹی ہے جس نے ولائے علیؑ کا دن منایا۔ کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے آغا مظاہر حسین الموسوی نے کہا کہ تمام باتوں کا مطمعِ نظر عشق حسینؑ ہے، جو انسان عاشق نہیں ہے وہ انسان بن کر دنیا سے رخصت نہیں ہوا، حسینؑ کیوں سب کا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے، حسینؑ سب کا اس لئے ہے کہ حسینؑ رب کا ہے، حسینؑ انسانیت کا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم حسینی ہوں تو ہمیں بھی رب کا ہونا چاہیئے۔
قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/c/IslamtimesurOfficial